• news

نئی نسل کے نفسیاتی مسائل اور ان کا حل

18 مئی 2023 ءکا دن ایک یادگار دن تھا ۔اس دن فاؤنٹین ہاؤس لاہورمیں آٹھویں اہل قلم کانفرنس منعقد ہوئی۔ فروغ ادب کے حوالے سے بچوں کے مقبول ماہنامہ ’پھول‘ کے مدیر، نامور صحافی اور کالم نگار شعیب مرزا کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ خرابی صحت کے باوجود آپ اس کانفرنس کا انعقاد بڑی باقاعدگی سے کر رہے ہیں۔ امسال بھی اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر دل کی اتھا ہ گہرائیوں سے شعیب مرزا اور ان کی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ماضی میں یہ کانفرنس مختلف مقامات پر ہوتی رہی ان مقامات میں پانچ ستارہ ہوٹل بھی شامل ہیںلیکن جو لطف فاؤنٹین ہاؤس میں آیا وہ کہیں بھی نہ آیا۔ کانفرنس کے شرکاءنے تو یہاں تک کہا کہ ہر سال کانفرنس یہیں پر منعقد کروائی جائے۔ اس کامیابی کی بڑی وجہ معروف ماہر نفسیات، دانشور اور ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سید عمران مرتضیٰ کی محبت ، دلچسپی اور پر خلوص میزبانی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک بہترین منتظم ہیںاور عرصہ بیس سال سے اس ہسپتال میں انتظامی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ہسپتال کے عملہ نے ڈاکٹر صاحب کی زیر قیادت ملک بھر سے آئے ادیبوں کا پرتپاک استقبال کیا ، عزت و احترام سے نواز ا، پرتکلف چائے سے تواضع کی اور بہترین کھانا پیش کیا۔ عمدہ انتظامات اور پر جوش میزبانی پرشرکاءکانفرنس نے ہسپتال کے عملہ اور منتظمین کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کیا۔ ہسپتال کی صفائی اور انتظام دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس ہسپتال کی وسیع عمارت محسن لاہور سر گنگا رام کی بیوہ بہن نے تحفہ دی۔ 
ہر سال کانفرنس کا ایک منفرد موضوع ہو تا ہے۔ امسال موضوع ’نئی نسل کے نفسیاتی مسائل کے حل میں اہل قلم کا کردار‘ تھا۔ اصلاح معاشرہ میں اہل قلم کا کردار مسلمہ ہے۔ یہ بات طے ہے کہ صرف رسمی تعلیم سے آدمی انسان نہیں بنتااس کے لیے تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ یہ تربیت معیاری ادب کے بغیر ممکن نہیں۔ ادب فرد کی تربیت کرتا ہے اس کی فکر میں انقلاب پیدا کرتا ہے۔ ادیب، شعرا، کالم نگار اور صحافی ایک فکر دیتے ہیں جس معاشرہ اپنی راہ کا تعین کرتا ہے۔ سیانے بتاتے ہیں کہ معاشرہ محض انتظامی معاملات سے نہیں سدھاراجا سکتااس کے لیے ایک فکری انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ فکری انقلاب بھی معیاری ادب کے بغیر ممکن نہیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے معیاری ادب اچھے ادیب کے بغیر ممکن نہیں۔ بات سچ بھی ہے اور رسوائی کی بھی کہ نہ تو معاشرہ کو اس حقیقت کا ادراک ہے اور نہ ہی حکومت کو۔ وطن عزیز کا ادیب بڑا با ہمت ہے کہ کسی قسم کی حوصلہ افزائی کے بغیر ادب تخلیق کرتابڑی معاشی مشکلات کے بعد اس کو کتاب کی شکل دیتا ہے، عوام کو پیش کرتا ہے کہ پڑھو لیکن عوام کی بے حسی اور بد نصیبی کہ عوام اس سے بدکتی ہے اور اس سے دور بھاگتی ہے۔ دس ہزار کا جوتا تو خرید لیں گے لیکن دو سور روپے کی کتاب نہیں خریدیں گے۔
کانفرنس کے دوران ایک قد آور ادیب سے، جن کی تحریریں قومی اخبار میں شائع ہوتی ہیں، گفتگو کا موقع ملا۔ ان سے پوچھا کہ آج کل معاشی حالات کیسے چل رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اکلوتا بیٹا ایک موٹر سائیکل مکینک کے پاس کام سیکھ رہا ہے اور خود دو دنوں سے ایک چھوٹی سی دکان چلا رہا ہوں۔ ان کا جواب سن کر دلی دکھ ہوا۔ حکمرانوں اور معاشرہ کی بے حسی کی حد نہیں تو کیا ہے۔ بڑے بڑے پبلشرز حضرات اور میڈیا ہاؤسز کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ بلوچستان سے آئے ایک بڑے پیارے ادیب نے بڑی حسرت سے ایک خواہش کا اظہار کیا کہ ایسی ہی ایک کانفرنس ان کے صوبے میں بھی منعقد ہو جائے۔ یہ کوئی ایسی بڑی خواہش نہیں جو پوری نہ کی جاسکے ۔
نئی نسل کے نفسیاتی مسائل بڑے بھیانک ہیں۔ اعداد و شمار بڑے ڈراؤنے ہیں۔ ڈاکٹر عمران نے بتایا کہ پچیس فیصد آبادی ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ جس رفتار سے اس شرح میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ پوری قوم ہی اس میں نہ مبتلا ہو جائے۔ سانحہ یہ بھی ہے کہ حکمران اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں۔ کئی خطرناک ذہنی مریض تو سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیںجو لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں۔ انسانی ذہن جسم کے دوسرے اعضا کی طرح ایک عضو ہے۔ جس طرح دیگر اعضا امراض کا شکار ہوتے ہیں اسی طرح ذہن بھی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ ذہنی مرض میں مبتلا افراد زیادہ توجہ کے طلب گار ہوتے ہیں۔ عام طور ان مریضوں کو ’پاگل‘ کہا جاتا ہے اور ان سے متعلقہ ہسپتالوں کو ’پاگل خانہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ انتہا درجہ کی بد تہذیبی ہے۔ خدا خوفی بھی کوئی چیز ہے۔ کوئی بھی اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ ملک عزیز میں دیگر امراض کے علاج کے مراکز کا تو برا حال ہے ہی ذہنی امراض کے ڈاکٹر اور علاج گاہیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
کانفرنس میں مقررین نے علم و حکمت کے موتی بکھیرے۔پر مغز خطابات نے حاضرین کے علم میں اضافہ کیا۔ہر خطاب اس لائق ہے کہ اس کو موضوع بنا کر ایک کالم لکھا جائے۔سچ یہ ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل ہادی عالم ﷺ کی روشن تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔غیروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے مرکز سے رجوع کرو ہر مسئلہ کا حل مل جائے گا۔

قاضی عبدالرئوف معینی

قاضی عبدالرئوف معینی 

ای پیپر-دی نیشن