کرکٹ ورلڈ کپ فائنل کے ناقابل فراموش واقعات
19نومبر کو بھارت میں سجاکرکٹ ورلڈ کپ کا میلہ اختتام پذیر ہوا اور اپنے پچھلے بہت سے ان مٹ نشانات چھوڑ گیا۔ بہت سے کھلاڑیوں کے پرانے ریکارڈ ٹوٹتے اور نئے ریکارڈ بنتے رہے۔بہت سی ہر دلعزیز ٹیموں کی طرح پاکستان کرکٹ ٹیم بھی سیمی فائنل سے پہلے ہی ٹورنا منٹ سے باہر ہوگئی۔ اس پورے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کے عوام کے لیے سب سے تکلیف دہ لمحات پاکستانی ٹیم کی افغانستان کی کرکٹ ٹیم سے شکست کے بعد افغان کھلاڑیوں کا پاکستان خلاف تضحیک آمیز رویہ اور بھارتی میڈیا پرپاکستان کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈا اورکھیل میں شکست پر بات کرنے سے زیادہ پاکستان کو افغان دشمن ثابت کرنے کے لیے کیے جانے والے تبصرے تھے۔ حیران کن منظر پاکستان کرکٹ ٹیم کی شکست کے بعد ازاں کھلاڑی راشد خان کا بھارتی ترنگا لہراتے ہوئے کرکٹ اسٹیڈیم میں رقص اور جشن تھا۔ جس میں بعدازاں بھارتی کھلاڑی بھی شامل ہوگئے۔ بھارت کے ٹیلی ویژن چینل یہ مناظر تا دیر دکھاتے رہے اور بھول گئے کہ افغانستان میں کرکٹ نام کی کوئی ٹیم نہیں ہے نہ ہی وہاں اس کھیل کی اجازت ہے جبکہ افغانستان میں عبوری حکومت اس افغا ن جھنڈے کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں جسے افغانستان کی شناخت کے لیے لہراتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اگر افغان کرکٹ ٹیم کی بات کی جائے تو ان میں اکثریت کھلاڑیوں کی پیدائش پاکستان کے مختلف شہروں یا افغان مہاجرین کے کیمپوں میں ہوئی ۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میںیا یہاں کے گلی محلوں میں افغان بچوں نے کرکٹ کھیلنا سیکھی جس کے لیے پاکستانیوں نے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ افغانستان میں امریکی و نیٹو قبضہ کے دوران صدر اشرف غنی کے دور میںجب وہاںکرکٹ ٹیم وجود میں آئی تو پاکستان کے مایہ ناز کھلاڑ ی عمر گل ، انضمام الحق اور یونس خان افغانستان جاکر وہاں افغان کھلاڑیوں کی عالمی سطح پر کرکٹ کھیلنے کے لیے ان کی تربیت کے فرائض سرانجام دیتے رہے تاہم افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے افغان عبوری حکومت کے خوف میں مبتلا ہوکر افغان کھلاڑیوں نے دبئی میں مستقل سکونت اختیار کی تو ان کے پاس پاکستان کے خلاف تیور بھی بدل گئے اور اب حالیہ کرکٹ کپ کے دوران تو افغان کرکٹ ٹیم افغانستان کی نہیں بھارت کی بی ٹیم زیادہ لگ رہی تھی۔
اگر بھارت میں کھیلے گئے کرکٹ ورلڈ کپ کی بات کریں توفائنل میں اس وقت نہ صرف بھارتی شہر احمد آباد میں کرکٹ اسٹیڈیم میں موجود ایک لاکھ سے زیادہ تماشائی بلکہ ٹیلی ویژن چینل پر پوری دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں میچ سے لطف اندوز ہونے والے دنگ رہ گئے جب 24 سالہ وین جانسن نامی اسٹریلوی نوجوان نے گراؤنڈ کی حفاظتی گرل پھلانگی اور بیٹنگ میں مصروف بھارتی کھلاڑیوں کی طرف لپکا ۔ آسٹریلین کرکٹ ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا تھا اور ا س وقت 14واں اوور چل رہا تھا۔ اسٹریلین نوجوان نے جیسے ہی گراؤنڈ میں داخل ہوکر بھارتی کھلاڑیوں کی طرف بھاگنا شروع کیا تو سب کے لیے اس نوجوان سے زیادہ اس کی ٹی شرٹ دلچسپی کا باعث بن گئی۔ اس نے چہرے پر فلسطین کے جھنڈے سے بنا ہوا کورونا وبا کے دوران رواج پانے والا ماسک چڑھا رکھا تھا۔ اس کی سفید رنگ کی ٹی شرٹ کی پشت پر فلسطین کے جھنڈے کے ساتھ نمایاں الفا ظ میں ’فری فلسطین‘لکھاہوا تھا۔ جبکہ سامنے کی طرف ٹی شرٹ پر فلسطین پر بمباری کی تصویر نقش تھی اور ساتھ فلسطینیوں پر بمباری روکنے کا پیغام درج تھا۔ آسٹریلین نوجوان کو قابو کرنے کے لیے گراؤنڈ سکیورٹی پر تعینات بہت سے باوردی افراد آسٹریلین نوجوان کی طرف لپکے ۔ لیکن وہ اپنا مقصد حاصل کر چکا تھا۔ اس نے کوہلی کے قریب پہنچ کر اس کا کاندھا تھپتھپایا اور الگ ہوگیا۔ سکیورٹی والے اسے پکڑ کر ساتھ لے گئے ۔ اس نوجوان کے چہرے پر موجود اطمنان بتا رہا تھا کہ فلسطینیوں کی حمایت کے لیے اس اکیلے نے وہ کام کردکھایا ہے جو دوسر کوئی نہیں کرپایا۔ اس کا یہ اقدام اب کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ کا حصہ بن چکا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ورلڈ کپ فائنل کا دوسرا اہم لمحہ ورلڈ کپ ٹرافی آسٹریلین کپتان کے حوالے کرنے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے غیر اخلاقی رویے پر مبنی تھا جس نے ثابت کردیا کہ ایسا شخص چاہے وزیراعظم ہی کیوں نہ بن جائے اس کے اندر کا متعصب ذات پات پر یقین رکھنے والا کمینہ پن قائم رہتا ہے۔ نریندر مودی آسٹریلین کپتان کو ٹرافی پکڑانے کے بعد جس رعونت کے ساتھ واپس پلٹا میزبان ریاست کے وزیراعظم کو ایسا رویہ زیب نہیں دیتا تھا۔کیا ہوا اگر بھارتی کرکٹ ٹیم میچ ہار گئی ۔ آسٹریلین ٹیم بھارت میں نریندر مودی کی مہمان تھی۔ پھر جس مشکوک انداز میں ٹاس جیت کر اپنے بالروں کی مددکے لیے تیار کی گئی وکٹوں سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے بھارتی ٹیم سارے میچ جیتے، فائنل میں شکست کو بھی بھارتی وزیراعظم کو اسی انداز سے قبول کرنا چاہیے تھا جو کسی بھی کھیل میں ہار جیت کا تقاضا ہے ۔ یوں بھارت اخلاقی طور پر سپورٹس مین شپ کے میدان میں بھی ہارگیا۔ بھارتی میڈیا پر فائنل کے بعد نشر ہونے والی خبروں کے مطابق فائنل میچ سے پہلے رات کو احمد آباد اسٹیڈیم میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی فائنل جیتنے کے بعد ٹرافی اور گولڈ میڈل وصول کرنے کی ریہرسل کرتے رہے جوکہ حیران کن بات تھی۔ گراؤنڈ میں بھارتی کھلاڑیوں کے نام سے مزین لائٹس جاکر رقص کرنے اور جشن منانے کی پریکٹس بھی کی گئی۔بھارتی کھلاڑیوں کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ نہ صرف بھارتی کرکٹ ٹیم بلکہ بھارت کی حکومت کو بھی یقین تھا کہ ورلڈ کپ کی ٹرافی بھارت کی ہوگی یقینا ہندو جوتشیوں نے بھی بھارتی کھلاڑیوں اور نریندر مودی کو یقین دلارکھا ہوگا کہ کامیابی بھارت کا مقدر ہے اس کے برعکس جب بھارتی کرکٹ ٹیم کو اپنے وزیراعظم کے سامنے شکست کا سامنا کرنا پڑا تو بھارتی وزیراعظم اسی غم میں ساری اخلاقیات بھلا بیٹھا اور اپنے منفی رویے کو کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ کا حصہ بنانے پر مجبور ہوگیا ہے۔