لکھتے جاﺅ
آپ جو کچھ روزانہ اپنے گردو پیش میں دیکھتے ہیں، اسے اگر لکھتے جائیں تو آپ کا ذہن کشادہ ہوگا اوریاداشت بھی درست رہے گی۔ یہ بات ہائی سکول میں اردو کے استاد حافظ جلال الدین صاحب نے سمجھائی تھی۔ دہائیاں گزر گئیں تقریباً چالیس سال بعد یہی بات مستنصر حسین تارڑ نے اپنے سفرنامے ’نیویارک کے سورنگ‘ میں لکھی۔ بلکہ وہ توبے سرے گانے والوں کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ گاتے جاﺅگاتے جاﺅ، یہاں تک کہ کوئی اچھا گانے والاتمھاری آواز کے سر تال کوتنقید کے جال سے پکڑلے اورشاید تمھیں کچھ اسرار ویوز سکھا کرواقعی ایک گانے والابنادے۔ لکھتے جاﺅصبحوں، شاموں کے درد اور گداز کو، امید اورناامیدی کے درمیان واقع ہونے والی داستانوں کو۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ کوجوڑنے کی کوشش کرتے رہو، ایک وقت آئے گاکہ آپ کوئی مصرع موزوں نہ بھی کرسکیں توپہلی اوردوسری سطر کے مصرعوں کے الفاظ گنتی میں برابر ہوجائیں گے۔
اس سے اگلے موقع پر کوئی دوست،کوئی استادیاپرانی کتابوں کی کسی دکان سے کوئی ایسی کتاب مل جائے گی جوعلم عروض سے اگر متعلق نہ بھی ہوتو اسے پڑھ کرکسی بڑے شاعرکارنگ آپ پر چڑھ جائے۔ کچھ قلبی واردات ہوجائے یاافلاس آپ کا بھرکس نکال دے یاکوئی زمانہ ایسا ہوجو آپ کورسوا کرکے رکھ دے توممکن ہے آپ کے بے تکے مصرعے دل سے نکلیں اورپہلے ایک خوبصورت شعر اورپھر پوری غزل ہوجائے۔ آج کازمانہ ایسی ہنگامی تخلیق کے لیے ویسے بھی بڑاموزوں ہے۔ سیاسی کارکنوں کے رات کے اندھیروں میں بھی منہ پر کپڑا ڈال کراغوا ہونے کے واقعات اخبارات میں پڑھنے کومل رہے ہیں۔ ان کی ماﺅں بہنوں اوربہو بیٹیوں کوان کے سامنے رسوا کیاجارہا ہے۔ خدیجہ شاہ ،صنم جاوید اورڈاکٹر یاسیمین راشد سمیت کئی خواتین جیلوں کارزق بن رہی ہیں۔
سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والا اورکئی بارکا وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی پندرہ مرتبہ گیا۔ رہا ہواتو دروازے پرہی گرفتار کرکے پندرہ بار ہی دوبار گرفتار کر لیا گیا۔ آپ کے اردگرد لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ بس لکھتے جاﺅ چاہے اپنی ذاتی ڈائری کے لیے یاکسی اخبار، رسالے یاسوشل میڈیاکے لیے۔ یہ درست ہے کہ آپ حبیب جالب نہ بن سکیں مگر آپ کا لکھا کچھ نہ کچھ اثر تو چھوڑے گا۔ کچھ نہ کچھ تو مصرعے موزوں ہوں گے ۔ کہیں نہ کہیں تو کوئی آپ کے خیالات اور آپ کے احتجاج سے متفق ہو گا کسی نہ کسی جلسے سے میں تو آپ کو اپنی بات کرنے کے لیے بلایا جائے گا۔ یہی لکھ دیں کہ جلسے اور جلسوں میں تو ہم جائیں گے تقریریں بھی کریں گے مگر جو ملک میں عام انتخابات کے اعلان کے بعدیہ جوموت کی سی خاموشی ہے اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔ کیا الیکشن نہیں ہونے۔ اگر ہونے ہیں تو کون جیت سکتا ہے اور جو جماعت جیت سکتی ہے اس کے جلسے کیوں نہیں ہو رہے ۔ کیا اس کی عوامی مقبولیت ختم ہو گئی ہے ۔ اس کے خلاف طاقت اور دولت کی فحاشی سر چڑھ کر بول رہی ہے ۔
چلیں اور کچھ نہیں تو راہ چلتے جو کچھ آپ دیکھتے ہیں اسے ہی قلمبند کرتے جائیں کہ کسی طرح سڑک پر کھڑا ہو کر ایک پولیس والا ’نئے قانون‘ کے تحت سکول جاتے بچوں کے موٹر سائیکل کھڑے کر کے ان پر ضابطہ فوجداری پاکستان کے تحت مقدمات ایف آئی آر درج کرکے انھیں اس عمر سے ہی ریکارڈ یافتہ مجرم بنا رہا ہے۔ اگر آپ کے علم میں یہ قانونی بات نہیں کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی تونہ سہی کم از کم اس دیوالیہ قانون کے خلاف لکھ کر اپنے سکول کے پرنسپل، ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور سی پی او سے لے کر وزیر اعلیٰ تک ہی پہنچا دیں۔ اور کچھ نہیں تو ہر اخبار میں ’ایڈیٹر کے نام خطوط‘ میں ہی اپنا مسئلہ ایک چھوٹے سے خط میں لکھ کر بھیج دیں۔
یہاں ’ایڈیٹر کے نام خطوط‘ سے ایک واقع یا د آگیا ۔ گوجرانوالہ میں لو انکم ہاو¿سنگ سکیم بنی ہے بعد میں جسے پیپلز کالونی کانام دیا گیا تھا۔ اس میںصحافیوں کے لیے پلاٹ کا کوٹا بھی مقرر تھا۔ یہ کالونی پیپلز پارٹی نے بنائی تھی مگر جب قرعہ اندازی کا وقت آیا تو ضیاءالحق آچکے تھے۔ پیپلز پارٹی کے مخالف صحافیوں پر کچھ نوازشات کا سلسلہ شروع ہوا تو ان سے ایک ایسے ©©©©’صحافی‘ کو بھی مخصوص کونے میں پلاٹ الاٹ کیا گیا جو کبھی کبھی ’ایڈیٹر کے نام خطوط‘ لکھا کر تا تھا۔ طلبہ کے لیے خاص طور پر کہنا چاہوں گا کہ وہ لکھتے رہیں۔ انگریری میں یا اردو میں۔ مقابلے کے امتخانات میں وہی کامیاب ہوتے ہیں جو مضمون نگاری میں ماہر ہوں۔ آخر میں سوشل میڈیا پر لکھنے والوں کے لیے یہ ضرور کہوں گا کہ زبان اور محاورے کے ساتھ ساتھ اخلاق کو بھی اپنانے کے بارے میں کچھ سوچیں۔