• news

 کم عمر لڑکوں کو گاڑی نہیں، تربیت دیں 

ہمارے ہاں اکثر یہی سننے کو ملتا ہے کہ لڑکیوں کی تربیت پر تمام توجہ مرکوز کی جائے۔ جی نسلوں کا سوال ہے جبکہ لڑکوں کی تربیتی آبیاری پر دھیان نہیں دیا جاتا جو کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ لڑکوں کی تربیت معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ والدہ کے ساتھ بالخصوص والد کا بیٹوں کو سکھانا اس لیے اہم ہوتا ہے کیونکہ ان کا واسطہ بیرونی دنیا سے زیادہ پڑتا ہے۔ اگر ٹریننگ نہ کی گئی تو منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ جو حالات چل رہے ہیں ان میں اگر کم عمر لڑکوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو واضح نہ کیا گیا اور ان کو غلط بات پر نہ ٹوکا گیا تو لڑکے خودسر اور ضدی ہو کر والدین کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیں گے جو انھوں نے اپنے بیٹوں سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ بدتہذیب لڑکے باعث رحمت کی بجائے باعث زحمت بن جاتے ہیں اور بڑھاپے میں والدین کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
لڑکے کی تربیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرہ کا فرض شناس شہری، خدمت گزار بیٹا، عزت کرنے والا داماد، غم گسار شوہر اور بہنوں کی سرپرستی کرنے والا بھائی بن سکے۔ تربیت سے حقوق و فرائض کی آگاہی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس ڈیجیٹل دور میں کڑی نگاہ رکھیے کہ ٹین ایج لڑکوں کی دوستیاں کس سے اور کس سبب ہیں۔ وہ کس سے ملتے ہیں۔ ملاقات کے دوران موضوع گفتگو کون سی باتیں ہوتی ہیں۔ مشاہدے میں ہے کہ صاحب ثروت گھرانوں میں دس سال کے بچوں کو ذاتی سمارٹ فون الاٹ کر دیا جاتا ہے اور وہ پڑھائی کرنے کی بجائے گھنٹوں گھنٹوں باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اب اتنی سی عمر میں کیا باتیں ہو سکتی ہیں کیا معلوم ؟
 تلخ حقیقت ہے کہ آج کل کے لڑکے تمیز سے بات کرنے کو اپنی انا کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اگر بڑے انھیں کسی بات پر ٹوکتے ہیں تو پلٹ کر ایسا جواب آتا ہے کہ بندہ دم بخود رہ جاتا ہے۔ نہ سلام نہ دعا نہ ہی آنکھوں میں حیا و لحاظ۔ سب آہستہ آہستہ رخصت ہوتا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے والدین جب اولاد کی تربیت سوشل میڈیا کے سپرد کر دیں گے تو انھیں کیا علم کہ تمیز و تہذیب سے بات کرنا کس بلا کا نام ہے، وہ تو وائرل شدہ الفاظ کی بالشت بہ بالشت نقالی کریں گے۔ عصر حاضر کی سب سے بڑی خرابی ٹک ٹاک ہے جس نے نوجوانوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے کئی ٹین ایج لڑکے فالورز حاصل کرنے کے چکر میں کم عمری میں بندوق سے ایکٹنگ کرتے کرتے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ المیہ ہے کہ ہمارے بدترین سیاسی حالات نے ملک و قوم کو اپنی ہی ڈالی ہوئی ہے۔ نہ کوئی امنگ ہے اور نہ ہی کوئی تحریک۔ جو نوجوانوں کو بہترین مستقبل کی جانب گامزن رکھے۔
 افسوس صد افسوس ہے ایسے والدین پہ کہ جنھوں نے لاڈ پیار اور انلائٹمنٹ کے نام پر نا پختہ ذہن لڑکوں کو ’جدید اشیائ‘ مہیا کی ہوئیں ہیں اور گاڑی یا آئی فون تھمانے کی تصاویر سوشل میڈیا پر فخریہ انداز سے اپ لوڈ کی جاتی ہیں جیسے کہ کوئی معرکہ سر کر لیا ہو۔ ابھی چند روز قبل کا تازہ ترین واقعہ ہے کہ کم عمر لڑکے کی گاڑی کی ٹکر سے 6 افراد جاں بحق ہو گئے۔ خاندان کے سربراہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملزم نے گھر کی خواتین سے بدتمیزی کی، گاڑی میں ہاتھ ڈال کر دوپٹا کھینچنے کی کوشش کی، منع کرنے پر تکرار کے بعد گاڑی سے پیچھا کر کے ٹکر ماری۔ انھوں نے کہا کہ یہ حادثہ نہیں، میرے خاندان کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔
اب صرف 14 سالہ لڑکے کی بے پروائی کہیے یا کہ خودسری کا انتقام۔ پولیس قانون کے مطابق کارروائی کر رہی ہے۔ ذرا سوچیے کہ بچے کا مستقبل کیا ہوگا جس کی چڑھتی جوانی ہی سلاخوں کے سائے سے داغ دار ہوگی۔ پچھتانے سے بہتر ہے کہ کم عمری میں لڑکوں کو گاڑیاں قطعاً نہ دی جائیں۔ نیز ڈیجیٹل ڈیوائسز بھی بلاضرورت نہ تھمائی جائیں کیونکہ قبل از وقت ایسی اشیاءتھمانا موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ لاڈ پیار والدین کا فرض اور اولاد کا حق ہے مگر اعتدال کے پہلو کو فراموش نہ کیجیے۔ نگاہ رکھیے، باخبر رہیے۔ اگر یہ ممکن نہیں۔ تو ہو سکتا ہے کہ خدانخواستہ اگلی خبر آپ کا تعاقب کر رہی ہو۔
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن