پاک امریکہ تعلقات
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے اتار چڑھاو¿ کا شکار رہے ہیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کے تعلقات ساس بہو جیسے بھی رہے ہیں، یعنی دونوں میں نوک جھونک بھی چلتی رہی کبھی بڑے اچھے تعلقات بھی ہوتے ہیں تو کبھی اس میں ناراضی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر دونوں کے تعلقات کی ایک تاریخ ہے پاکستان امریکہ کے تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی رہا ہے۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر جب سوویت یونین نے افغانستان میں چڑھائی کی تو امریکہ اور پاکستان کی مدد سے ہی افغانستان میں سوویت یونین کا راستہ روکا گیا۔
سوویت یونین جب افغانستان سے رخصت ہوا تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجود تعلقات میں سرد مہری آ گئی جو 1999ءمیں مشرف حکومت کے قیام میں آنے تک قائم رہی۔ پھر 2001ءمیں نائن الیون ہوا تو افغانستان میں جنگ کے لیے امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پڑی تو پاکستان نے ہر لحاظ سے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کا اربوں ڈالرز کا نہ صرف نقصان ہوا بلکہ ہزاروں جانیں بھی قربان کیں۔ اس جنگ کے دوران بھی امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دی۔ ایک رپورٹ کے مطابق، صرف جنرل مشرف کے دور میں امریکہ نے پاکستان کو مختلف مد میں تقریباً 19ارب ڈالرز کی امداد دی۔ پھر اس کے بعد کیری لوگر بل کے تحت 2010ءسے لے کر 2015ءپاکستان کو سات ارب ڈالرز کی امداد دی گئی اور اس کے بعد بھی پاکستان میں مختلف ایسے منصوبے ہیں جو امریکی تعاون سے پروان چڑھ رہے ہیں۔
امریکہ چونکہ ایک سپر طاقت ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے تو ہمیں بھی اس لحاظ سے اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ دونوں جانب سے گلے شکوو¿ں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن اس سرد مہری کو اب ختم کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس وقت لاکھوں پاکستانی امریکہ میں موجود ہیں جو پاکستان میں اربوں ڈالرز زر مبادلہ بھیجتے ہیں جس کا پاکستان کی معیشت میں انتہائی اہم کردار ہے۔ پھر کورونا وبا کے دوران امریکہ نے پاکستان کو مفت ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی۔ اس کے علاوہ پاکستانی طلبہ کی ایک بڑی تعداد امریکی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اس لیے امریکہ کو نظر انداز کرنے یا اس پر الزام لگانے کی پالیسی کو ترک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ روس اور امریکہ کے درمیان پاکستان کو توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یوکرائن روس جنگ میں کسی ایک فریق کی حمایت ہماری خارجہ پالیسی کا جزو نہیں ہونا چاہیے۔
یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ یوکرائن مالی اور عسکری لحاظ سے روس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ویسے بھی پاکستان نے کبھی بھی کسی جارح قوم یا فوج کی حمایت نہیں کی اور پاکستان نے ہمیشہ جارحیت کی نفی کی ہے چاہے وہ کوئی بھی کرے۔ پاکستان نے افغانستان جنگ میں بھی ایک حد تک امریکہ کا ساتھ دیا اور کبھی بھی براہ راست افغان جنگ میں امریکہ کے ساتھ ملوث نہیں ہو۔ عمران خان کے دور حکومت میں بھی جس طرح امریکہ کے ساتھ تعلقات کو سرد خانے میں دھکیلا بھی پاکستان کے لیے اور اس کی خارجہ پالیسی کے لیے کوئی صحت مند اقدام نہیں تھا۔ اس کے بعد آنے والی حکومتوں اور ہماری عسکری قیادت نے اہم ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے ان تعلقات کو دوبارہ بحال کیا اور اب ایک بار پھر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں امریکی اسلحہ کے استعمال پر پاکستان میں تشویش پائی جاتی ہے۔
افغانستان سے امریکہ کے نکلنے کے بعد خطے میں دہشت گردی نے دوبارہ سر ابھارا ہے اور پاکستان میں جو بھی حکومت بنے چاہے اس کا تعلق نگرانوں سے ہو یا مستقبل میں جو بھی حکومت قائم ہو ہمیں امریکہ کے ساتھ تعلقات کو معاشی و سیاسی مفادات کے تحت لے کر چلنا چاہیے کیونکہ الزام تراشیوں کا ہمیشہ پاکستان کو عالمی سطح پر نقصان ہی ہوا ہے۔ پاکستان کے لاکھوں لوگ اس وقت امریکہ میں مقیم ہیں اور اس کے علاوہ ہزاروں پاکستانی طلبہ ہر سال امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں اور پھر ہر سال امریکہ سے اربوں ڈالر زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں اور یہ وہ عوامل ہیں جو ہمیں امریکہ کے ساتھ تعلقات بناتے ہوئے اور ان کے متعلق پالیسی قائم کرتے ہوئے ذہن میں رکھنے چاہئیں اور جہاں تک پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے پاکستان کی عسکری قیادت امریکی حکام کو اعتماد میں لے چکی ہے اور غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو ملک سے نکالنے کا معاملہ ہے تو اس پر بھی پاکستان امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔ چونکہ دنیا ایک گلوبل ولیج ہے تو یہاں ہر ملک اپنے جغرافیائی اور سیاسی حالات کو مدنظر رکھ کر پالیسی بناتا ہے تو پاکستان کو بھی ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو پروان چڑھانے چاہئیں تاکہ عالمی فورمز پر پاکستان اپنا مقدمہ اور پاکستانیت کے فروغ کے لیے بہتر انداز میں کام کر سکے۔