ن لیگ نہ آئی پی پی، اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا صرف پاکستان: جہانگیر ترین
کامونکی،لاہور (نمائندہ خصوصی +نوائے وقت رپورٹ) استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن ان چیف جہانگیر خان ترین اور مرکزی صدرعبدالعلیم خان نے کامونکے میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا استحکام، خوشحالی اور تعمیروترقی ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ مایوسی اور ناامیدی کی بجائے ہمیں آگے دیکھنا ہے اور تمام تر مسائل کے باوجود ملک کو خوشحال مستقبل سے ہمکنار کرنا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنا ہوں گے۔ استحکام پاکستان پارٹی نے ملک کو درپیش مشکلات پر قابو پانے اور عوام کا معیار زندگی بلندکرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جس میں ہم انشاءاللہ ضرور کامیاب ہوں گے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ کامونکے میں انٹر چینج بنے گا، کارڈیالوجی اور کڈنی ہسپتال بنائیں گے اور اسے ماڈل سٹی بنائیں گے۔ اس ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں صرف نیک نیت لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ لاہور جیسے شہر میں تعلیم اور صحت کی سہولیات نہیں۔ آج قائداعظمؒ ہوتے تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ سندھ میں کتا اور انسان ایک جگہ پانی پی رہے ہیں کیونکہ یہ حالات اس لئے ہیں کہ حکمران کرپٹ تھے، لٹیرے تھے جنہوں نے ملک کیلئے کچھ نہیں کیا۔ گزشتہ حکمرانوں نے اسلام اور ریاست مدینہ کے نام پر جو کیا سب کے سامنے ہے۔ اللہ کیلئے مدینہ کی ریاست کے نام پر یہ سب کچھ نہ کریں۔ پنجاب میں 7، سندھ میں 5 اور خیبرپی کے میں 2 مرتبہ حکومت کرنے والے دوبارہ اقتدار مانگ رہے ہیں، کوئی ان سے پوچھے اس ملک کا یہ حال کس نے کیا ہے۔ 40سال فرشتوں نے نہیں ان نکمے حکمرانوں نے ملک پر راج کیا ہے۔ پنجاب میں لوگ سیوریج ملا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر چار چار مریض بے یارومددگار پڑے ہیں اور غریب ایک وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ عام آدمی کو 300 یونٹ مفت بجلی، موٹر سائیکل سواروں کو نصف قیمت پر پٹرول کی فراہمی اور کسانوں کو مفت سولر ٹیوب ویل دینے کیلئے امیروں سے وسائل لیں گے اور ان کا رخ غریب لوگوں کی طرف موڑیں گے۔ کم از کم تنخواہ 50 ہزار مقرر ہو گی۔ کنونشن سے سابق ایم این اے و استحکام پاکستان پارٹی گوجرانوالہ ڈویژن کے صدر رانا نذیر احمد خان، سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور رانا عمر نذیر احمد خان و دیگر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر چوہدری نوریز شکور، ڈاکٹر مراد راس، رانا عامر نذیر اور مقامی رہنما بھی موجود تھے۔ جبکہ شہریوں کا بھر پور جوش و خروش قابل دید تھا۔ نوجوان ٹولیوں کی صورت میں جلسہ گاہ آتے رہے۔