چارج صحیح فریم ہوا نہ نیب کو معلوم تھا شواہد کیا ہیں: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سزا کے خلاف سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اپیلوں پر دلائل جاری رہے۔ نوازشریف کے استثنیٰ کی استدعا پر عدالت نے درخواست دینے کی ہدایت کردی۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران نواز شریف اپنے وکلاء اعظم نذیر تارڑ، امجد پرویز اور دیگر کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے۔ جبکہ نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نعیم طارق، افضل قریشی، رافع مقصود اور دیگر عدالت پیش ہوئے۔ اس موقع پر لیگی رہنماؤں کی کثیر تعداد بھی کمرہ عدالت موجود تھی۔ نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے ایون فیلڈ ریفرنس میں دلائل کا آغاز کیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ جو فیکٹ آپ نے دیے کیا یہ ریفرنس دائر ہونے سے پہلے کے ہیں؟، جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایاکہ تین حقائق ریفرنس سے پہلے جبکہ باقی بعد کے ہیں۔ 2017 میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ وکیل نے پانامہ کیس کی سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں اس معاملے پر تین سے چار منٹ میں بات مکمل کرلوں گا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کا ٹی او آر کا سکوپ کیا تھا؟، جس پر وکیل نے کہاکہ 20 اپریل کو بینچ نے سوالات اٹھائے کہ ان کا جواب جے آئی ٹی دے گی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی میں کتنے لوگ تھے؟، جس پر وکیل نے کہا کہ عامر عزیز بھی جے آئی ٹی کا حصہ تھے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ان کا نام کہاں ہے؟، جس پر نواز شریف کے وکیل نے جے آئی ٹی کی تشکیل، ٹی او آرز اور جے آئی ٹی ارکان سے متعلق عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ 20 اپریل کے آرڈر میں تشکیل اور اختیارات ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کے ٹی او آرز کہاں ہیں؟۔ وکیل نے کہا کہ اسی آرڈر میں ٹی او آرز دیے گئے ہیں۔ 20 اپریل کے فیصلے میں جے آئی ٹی کو تفتیش کا اختیار دیا گیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے نواز شریف کے اردگرد کھڑے تمام افراد کو بیٹھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تمام افراد نشستوں پر بیٹھ جائیں۔ وکیل کی جانب سے جے آئی ٹی کو دیے سوالات عدالت میں پڑھے اور کہا کہ کہا گیا اس معاملے پر مکمل تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔ 5 مئی کو پانچ رکنی جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی، جے آئی ٹی نے 10 جولائی 2017 کو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی۔ دس والیم پر مشتمل جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی۔ رپورٹ جمع ہونے کے بعد دلائل مانگے گئے۔ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ دیا۔ 28 جولائی کو وزیر اعظم پاکستان کو نااہل قرار دیا گیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا یہ معاملہ نیب کو بھجوایا گیا تھا یا نیب ریفرنس دائر کرنے کی پابند تھی؟۔ جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے نیب کو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔ عدالت نے فیصلے کے چھ ہفتوں میں ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔ نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیا گیا۔ فیصلے کی روشنی میں نواز شریف، حسین اور حسن نواز کیخلاف العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس دائر کیا گیا۔ احتساب عدالت کو چھ ماہ میں ریفرنس پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس وقت کے چیئرمین نیب نے یکم اگست 2017 کو ڈی جی نیب کو تفتیش بھیجی گئی۔ عدالت نے استفسار کیاکہ پھر نیب نے تفتیش کا کیوں کہا؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ تو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کرچکی تھی۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ نیب دوران جرح تسلیم کرچکی ہے کہ ہمارے پاس ریفرنس دائر کرنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف بری ہوئے تھے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیاکہ کیا نیب نے اپیل دائر کی تھی؟ جس پر وکیل نے کہاکہ نیب کی اپیل عدالت میں زیر سماعت ہے۔ العزیزیہ میں 7 سال اور ایون فیلڈ میں دس سال کی سزا ہوئی ہے۔ العزیزیہ ریفرنس میں نیب نے سزا بڑھانے کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔ ریفرنس دائری کے وقت نواز شریف اور مریم نواز برطانیہ میں تھے۔ نواز شریف اور مریم نواز برطانیہ سے آکر عدالت میں پیش ہوئے۔ نواز شریف اور مریم نواز کا کوئی وارنٹ گرفتاری کا آرڈر نہیں تھا۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد اور فرد جرم سے پہلے نواز شریف نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست دائر کی۔ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کہا کہ ہماری کسی بھی آبزرویشن سے اثر انداز ہوئے بغیر فیصلہ دے۔ ہم نے والیم دس مانگا تھا مگر ہمین فراہم نہیں کیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیاکہ کیا ٹرائل کے دوران والیم دس سے کسی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔ جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ چیئرمین نیب نے یکم اگست کو معاملہ تفتیش کیلئے ڈی جی نیب لاہور کو بھیجا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ نے ریفرنس دائر کرنے کا کہہ دیا تو معاملہ تفتیش کیلئے کیوں بھیجا گیا؟۔ وکیل نے کہاکہ ہم نے نیب سے یہ پوچھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تفتیش کیوں کر رہے ہیں؟۔ نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ریفرنس دائر کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ کہیں تحریری طور پر موجود ہے؟۔ جس پر وکیل نے کہاکہ جی بالکل، تحریری طور پر یہ بیان موجود ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نواز شریف ایک ریفرنس میں بری بھی ہوئے تھے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کیا گیا تھا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا نیب نے بریت کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے؟۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جی، اپیل دائر ہے لیکن نوٹس نہیں ہوئے اور آج سماعت کیلئے مقرر بھی نہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ نے تینوں ریفرنسز ایک ساتھ چلانے کی بھی ایک درخواست دائر کی تھی، جج صاحب نے ایک ریفرنس کو جلدی سے چلایا اور دو پر کارروائی کو روک دیا تھا۔ نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے ایون فیلڈ ریفرنس میں عائد کی گئی فرد جرم کا متن پڑھ کر سنایا اور کہا کہ نواز شریف نے چارج فریم ہونے کے بعد صحت جرم سے انکار کیا۔ احتساب عدالت نے فرد جرم کے بعد نیب سے شہادتیں طلب کر لیں۔ نیب نے ایک ابتدائی تفتیشی رپورٹ جمع کرائی اور بعد میں ضمنی تفتیشی رپورٹ دی۔ ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا نیب نے کہیں اپنا مائنڈ استعمال کرتے ہوئے بھی کچھ کیا؟۔ جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے نواز شریف کو ایک کال اپ نوٹس بھیجنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا، نیب نے ضمنی ریفرنس میں کچھ مزید شواہد ریکارڈ پر لائے، نیب نے میاں نواز شریف کے قوم سے خطاب کا ٹرانسکرپٹ قبضے میں لیا، نیب نے مریم، حسن اور حسین نواز شریف کے بیانات کا ٹرانسکرپٹ قبضے میں لیا، نیب نے کیلبری فونٹ سے متعلق ایکسپرٹ رابرٹ ریڈلے کا بیان شامل کیا، نیب نے تفتیش میں جے آئی ٹی رپورٹ یا گواہوں کے بیانات پر ہی انحصار کیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اگر نیب نے کوئی تفتیش خود سے کی ہوتی تو وہ کچھ بتانے کی پوزیشن میں ہوتے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ کیا نیب نے صرف ڈاکیے کا کام کرنا تھا یا اپنا مائنڈ بھی استعمال کرنا تھا؟، آپ کہہ رہے ہیں کہ پوری جے آئی ٹی رپورٹ نیب نے ریفرنس میں شامل کر دی؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا نیب نے خود سے نواز شریف کو نوٹس جاری کیا تھا؟۔ جس پر وکیل امجد پرویز نے کہاکہ جی، نوٹس جاری کیا اور نواز شریف نے جواب جمع کرایا تھا، نیب کے کال اپ نوٹس میں تفتیش سے متعلق کچھ نہیں ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ تو نیب نے اپنی طرف سے الگ سے کوئی تفتیش نہیں کی؟۔ جس پر وکیل نے کہاکہ جی بالکل، نیب نے صرف جے آئی ٹی کے سامنے بیان کی تصدیق چاہی، نیب نے نواز شریف کو خود سے کوئی سوالنامہ نہیں دیا، نواز شریف کو مالک اور مریم نواز سمیت دیگر بچوں کو بے نامی دار ثابت کرنے کا بوجھ پراسیکیوشن پر تھا، ہمارا موقف یہی رہا کہ چارج بھی غلط فریم ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معذرت کے ساتھ نہ چارج صحیح فریم ہوا اور نہ نیب کو پتہ تھا کہ شواہد کیا ہیں، نیب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مریم نواز بینفشل اونر ہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ نیب نے یہ کوشش ضرور کی مگر اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اس ریفرنس میں پہلے بھی اپیلیں سن چکے ہیں، معذرت کے ساتھ اس ریفرنس میں چارج ہی درست طور پر فریم نہیں کیا گیا، عدالت کو خود پتہ نہیں تھا کہ مریم نواز کا کیس میں کردار ہی کیا ہے، کیا وہ مرکزی ملزمہ ہیں یا اعانتِ جرم کا الزام ہے۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں 18 میں سے 6 گواہوں کے بیانات ہو چکے تھے جب نیب نے ضمنی ریفرنس دائر کیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا کسی گواہ نے ایسا کوئی بیان دیا جس کے بعد نیب نے ضمنی ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا؟۔ جس پر وکیل نے کہاکہ پہلی گواہ سدرہ منصور نے ایس ای سی پی کا ریکارڈ پیش کیا۔ میں تو یہ کہوں گا کہ ہمارا کیس اوپن ہوا اور گواہ پر جرح ہوئی تو اسی وقت نیب نے ضمنی ریفرنس لانے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ اس متعلق وقت لے کر جواب دیں۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ ٹرائل کورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز کی عدم موجودگی میں فیصلہ سنایا۔ احتساب عدالت کو فیصلے کی تاریخ تبدیل کرنے کی استدعا کی گئی، ٹرائل کورٹ نے ہماری درخواست ا±سی دن مسترد کر دی، احتساب عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنا دی۔ دلائل جاری رہے اور عدالت نے سماعت کل بدھ 29 نومبر تک کیلئے ملتوی کردی۔ اس موقع پر اعظم نذیر تارڑ نے نواز شریف کیلئے حاضری سے استثنی مانگ لیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کر دیں، ہم دیکھ لیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سے پچاس لوگوں کو کمرہ عدالت میں اجازت ہو گی، آج بھی موبائل کمرہ عدالت میں بج رہے تھے، اب دیکھیں نا کیا حال ہوا ہے، آئندہ سے پچاس لوگوں کو اجازت دیں گے۔ چیف جسٹس نے اعظم نذیر تارڑ سے کہا کہ آپ نے استثنی لینا ہے تو درخواست دیں پھر دیکھیں گے، آج سماعت کو یہاں پر ہی ختم کرتے ہیں، اپیلوں پر مزید سماعت کل کی جائے گی، ایک عوامی نمائندہ کے اثاثے اگر معلوم آمدن سے زائد اثاثے ہیں تو بغیر کرپشن کے وہ یہ کیسے بنا سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور اعظم نذیر تارڑ کا اہم مکالمہ ہوا۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ نواز شریف ہنسی خوشی عدالت میں آتے ہیں، استثنیٰ کی درخواست تو دائر نہیں کریں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر عدالت Blanket میں تو آرڈر نہیں کر سکتی، سب کچھ قانون قاعدے سے ہی چلنا ہے نا، ہم استثنی نہیں دیں گے لیکن کمرہ عدالت میں لوگوں کی تعداد ضرور کم کریں گے، یہ جس طرح عدالت میں موبائل بج رہے ہیں اور ابھی عدالت بیٹھی ہے اور لوگ ا±ٹھ ا±ٹھ کر جا رہے ہیں یہ کیا طریقہ ہے، یہ کوئی سینیما ہے؟۔ عدالت نے سماعت کل29 نومبر تک کیلئے ملتوی کردی۔