ٹیکس پالیسی میں ترامیم کی تیاری، آئی ایم ایف کی ٹیم مذاکرات کیلئے پاکستان پہنچ گئی
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) آئندہ بجٹ میں ٹےکس کی بنیاد کو وسیع کرنے، ٹیکس نظام میں اصلاحات اور ایف بی آر کی ٹیکس پالیسی کو بہتر بنانے کے لئے آئی ایم ایف کا تکنیکی مشن اسلام آباد پہنچ گیا۔ مشن ایف بی آر، وزارت خزانہ اور معاشی امور سے متعلق وزارتوں کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مشن کے ساتھ طے پانے والے تمام امور نگران حکومت ہی کے دور میں قرضہ پروگرام کے دوسرے ریویو میں دستاویزی شکل اختیار کر لیں گے اور آئندہ کی حکومت بھی ان کی پیروی کرنے کی پابند ہو گی۔ اس وقت نئی حکومت بجٹ سازی کرے گی اور ریویو کی دستاویز میں ان کو لاگو کرنا پڑے گا۔ تکنیکی ماہرین کا وفد پاکستانی حکام سے تقریباً ایک ہفتہ ٹیکس پالیسی پر مشاورت کرے گا۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ جی ڈی پی کے حجم کے تناسب سے ریونیو میں اضافہ کو 15فی صد تک لے جایا جائے اور اس کے لئے فوری، درمیانی اور طویل میعاد کی پالسی بنائی جائے۔ پرچون فروشوں سے چند ارب روپے ٹیکس کی وصولی پر تشویش ہے۔ اس حوالے سے نئی سکیم تیار کرنے پر مشاورت کی جائے گی۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ مزید 10 لاکھ لوگ ٹیکس نیٹ میں لاکر ٹیکس دہندگان کی تعداد 60 لاکھ تک پہنچائی جائے گی۔ تکنیکی وفد کے ساتھ مل کر ٹیکس پالیسی میں ترامیم تیار کی جائیں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیکس پالیسی اور انفورسمنٹ میں بہتری کیلئے آئی ایم ایف کا تکنیکی وفد معاونت کرے گا۔ آئی ایم ایف کی شراکت داری سے کمپلائنس امپروومنٹ پلان مارچ 2024 تک تیار کیا جائے گا۔ کمپلائنس امپروومنٹ پلان کے تحت رسک رجسٹرڈ رپورٹ اور ڈیش بورڈ تیارکر لیا گیا۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ ایف بی آر فیلڈ فارمیشنز کی جانب سے ٹیکس دہندگان کی معلومات پر رسک رجسٹرڈ تیار کیا جائے گا۔ ایف بی آر فیلڈ فارمیشنز کو ٹیکس دہندگان کی معلومات بینکوں، نادرا اور ایف بی آر انٹیگریشن سے ملیں گی۔ ٹیکس نیٹ سے باہر لوگوں کیلئے فہرست مرتب کی جائے گی جو آئی ایم ایف سے بھی شیئر ہوگی۔ دریں اثناءعالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ مالی سال 25-2024 کا بجٹ منصوبہ بندی کے طریقہ کار اور موسمیاتی موافقت پر مبنی سرمایہ کاری کے لیے عملی طور پر ایک اہم موڑ ثابت ہونا چاہیے۔ آئی ایم ایف نے عالمی تعاون حاصل کرنے اور ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق فنانسنگ کو راغب کرنے کے لیے اگلے سال کے بجٹ کی تیاری شروع کرنے سے پہلے حکومت کو تکنیکی مشورے دیتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات میں شفافیت کی ضرورت ہے، جن کے اثرات پالیسی سازی اور موسمیاتی فنانسنگ پر ہوں گے۔