پاکستان میں سرمایہ کاری شعبہ غیر موثر، پالیسی فیصلوں کا محور ذاتی مفادات، بجلی مہنگی کرنے کی ضرورت نہیں: عالمی بنک
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان کا سرکاری شعبہ غیر م¶ثر، قومی پالیسیوں کا محور ذاتی مفادات ہیں۔ بجلی کی قیمت مزید بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات عالمی بینک کے نائب صدر مارٹن ریزر نے پاکستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے عالمی بینک کے پالیسی نوٹ کے اجراءسے متعلق منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہی۔ اس موقع پر عالمی بینک کے پاکستان کے لیے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسین نے بھی خطاب کیا۔ عالمی بینک کے نائب صدر مارٹن ریزر نے کہا کہ بجلی کے لائن لاسز کو کم کیا جائے۔ انہوں نے مقامی قرضوں کو م¶خر کرنے پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ مقامی قرضے موخر کرانے سے بینکنگ سیکٹر اور سرمایہ کاری متاثر ہوسکتی ہے۔ معاشی اصلاحات پر بات چیت ہوئی ہے۔ معاشی اصلاحات کا عمل جاری رہنا چاہیے، معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد ضروری ہے۔ مارٹن ریزر نے مزید کہا کہ پاکستان کو ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 2 سے 3 فیصد تک بڑھانا ہوگا، محض ٹیکس وصولیاں کافی نہیں۔ اخراجات اور ٹیکس اصلاحات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ زرعی شعبے کو سہولیات دیے بغیر ٹیکس ریونیو میں اضافہ مشکل ہوگا۔ عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسین نے کہا کہ عالمی بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس دسمبر کے آخر میں ہوگا۔ رواں مالی سال پاکستان کو 2 ارب ڈالرقرض دیا جائے گا۔ ورلڈ بینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا نے پاکستان میں "خاموش انسانی سرمائے کے بحران" سے خبر درا کےا اور حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کے "روشن مستقبل" کے لیے مشکل لیکن ضروری فیصلے کریں۔ پالےسی نوٹ مےں کہا گےا کہ "پاکستان کی معیشت خراب انسانی ترقی کے نتائج اور بڑھتی ہوئی غربت کے ساتھ کم ترقی کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان فیصلہ کرے کہ ماضی کے نمونوں کو برقرار رکھنا ہے یا ایک روشن مستقبل کی جانب مشکل لیکن اہم قدم اٹھانا ہے۔ درےں اثنا عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان میں سرکاری شعبہ غیر مو¿ثر اور پالیسی فیصلوں کا محور ذاتی مفادات ہیں۔ عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے ممکنہ اصلاحات پر مبنی جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کو درپیش 6 بڑے مسائل کی نشاندہی کردی گئی۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں توانائی کا شعبہ ناقابل انحصار اور معیشت پر بھاری ہے۔ توانائی شعبے میں گردشی قرضہ مالی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان کا سرکاری شعبہ غیر مو¿ثر ہے جبکہ پالیسی فیصلوں کا محور ذاتی مفادات ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے سرمایہ کاری اور برآمدات کا فقدان ہے اور پاکستان کا زرعی شعبہ بھی غیر پیداواری اور جمود کا شکار ہے۔ پاکستان کو ہیومن کیپیٹل کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ دستیاب انسانی وسائل کا کم استعمال پیداوار اور ترقی کو متاثر کررہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر 40 فیصد بچے اسٹنٹنگ کا شکار ہیں جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ 2 کروڑ سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہیں ۔ ملک میں 10 سال سے کم عمر کے 79 فیصد بچے پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بلند مالی خسارے کا سامنا ہے۔ مالی سال 2022 کے اختتام تک مالی خسارہ 22 سال کی بلند ترین شرح 7.9 فیصد تک پہنچ گیا اور پاکستان کے ذمے قرضہ مقررہ قانونی حد سے زیادہ 78 فیصد کی بلند شرح پر ریکارڈ کیا گیا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے سرمایہ کاری اور برآمدات کا فقدان ہے۔ پاکستان میں زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ 23 فیصد ہے۔ زرعی شعبہ 40 فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے۔