مشرف مارشل لا کو قانونی قرار دینے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہئے: جسٹس اطہر
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں پرویز مشرف (مرحوم) کی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ اگر سزا برقرار رہتی ہے تو پرویز مشرف کی پنشن اور مراعات پر بھی اثر پڑے گا۔ سندھ ہائیکورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی نے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دیتے ہوئے کہا میں ججوں کے کنڈکٹ کا معاملہ بھی عدالت کے نوٹس میں لے آیا ہوں، پرویز مشرف کے اقدام کو جواز فراہم کرنے والوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا مارشل لاءکا راستہ دکھانے والے ججز کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا قوم بننا ہے تو ماضی کو دیکھ کر مستقبل کو ٹھیک کرنا ہے، سزا اور جزا اوپر بھی جائے گی، کئی بار قتل کے مجرمان بھی بچ نکلتے ہیں، وکیل اکر بتائیں ناں آئین توڑنے والے ججوں کی تصویریں یہاں کیوں لگی ہیں، جج ہی یہاں بیٹھ کر کیوں پوائنٹ آؤٹ کریں۔ منگل کے روز چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل چار رکنی لارجر بنچ نے مرحوم پرویز مشرف کی سزا کیخلاف اپیل اور لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا، کیا لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں خصوصی عدالت کے فیصلے کا ذکر کیا؟ کیا کہیں ذکر ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، ایسا نہیں تو پھر خصوصی عدالت کا فیصلہ تو برقرار ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے جب فیصلہ دیا تو کیا خصوصی عدالت فیصلہ سنا چکی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ نے جب خصوصی عدالت کے فیصلے پر کچھ نہیں کہا تو اکیڈمک مشق کی کیا ضرورت تھی؟۔ عدالت نے پاکستان بار کونسل کے نمائندگان کے دلائل پر کہا ہمیں معاونت نہیں مل رہی۔ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے جب فل کورٹ تشکیل تجویز کی تو اگلی تاریخ کیسے دی؟۔ فل کورٹ تشکیل دینا نہ دینا تو پھر چیف جسٹس کا اختیار تھا۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ آجانے کے بعد تو لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواءدرخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔ فیصلے کے بعد ہائیکورٹ میں درخواست ترمیم کے بعد کی چل رہی تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے لاہور ہائیکورٹ خصوصی عدالت کے فیصلے کو نظرانداز کر کے صرف عدالت کی حیثیت پر فیصلہ نہیں دے سکتی تھی۔ خصوصی عدالت ایک ریگولیٹر عدالت تھی ہی نہیں، وہ تو ایک فیصلے کیلئے تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے پرویز مشرف بھی سمجھتے تھے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد بھی خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار ہے، پرویز مشرف نے اسی لیے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ عدالتی سوال پر مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا ہائیکورٹ فیصلے بارے مجھے اس سے متعلق ہدایات نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہدایات کی بات نہ کریں آپ خود ایک قانونی ماہر کی حیثیت سے بتائیں، کیا لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو فیصلہ مانتے ہیں؟۔ وکیل صفائی سلمان صفدر نے جواب دیا میری نظر میں لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ، فیصلہ نہیں ہے۔ اس دلیل پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ کا بہت شکریہ، آپ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا جو راستہ چنا تھا ہم اس سے متفق ہیں۔ دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کیا آپ بھی لاہور ہائیکورٹ میں ایک پیج پر تھے، کیا وفاق نے بھی لاہور ہائیکورٹ کو نہیں بتایا کہ اب خصوصی عدالت فیصلہ سنا چکی، کیا آپ نے لاہور ہائیکورٹ سے کہا نہیں کہ آپ آگے نہیں چل سکتے؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے بارہ اکتوبر کے اقدام کو اسی عدالت نے راستہ دیا، مشرف مارشل لاءکو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے، کارروائی صرف تین نومبر کے اقدام پر کیوں کی گئی؟ تین نومبر کو صرف ججوں پر حملہ ہونے پر کارروائی ہو گی تو فیئر ٹرائل کا سوال اٹھے گا، کیا ججوں پر حملہ اسمبلیاں توڑنے، آئین معطل کرنے سے زیادہ سنگین معاملہ تھا؟۔ سندھ ہائیکورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی نے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دیتے ہوئے کہا میں ججوں کے کنڈکٹ کا معاملہ بھی عدالت کے نوٹس میں لے آیا ہوں، پرویز مشرف کے اقدام کو جواز فراہم کرنے والوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے رشید رضوی صاحب ماضی میں کب تک جائیں گے، کہ کیا کیا ہوا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا مجھے جسٹس اطہر من اللہ کا احترام ہے مگر ہمیں اب ماضی میں جانا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا بالکل جائیں پھر اسی مشرف نے 12 اکتوبر کو بھی آئین توڑا، اسمبلیاں توڑیں، رشید اے رضوی صاحب ہمیں سچ بولنا چاہیے، اگر کسی فیصلے کو ختم ہونا ہے تو ا±سے ہونا چاہیے ، مارشل لاءکا راستہ دکھانے والے ججز کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا جو ماضی میں ہو چکا اسے میں ختم نہیں کرسکتا، کیا ساؤتھ افریقہ میں سب کو سزا ہی دی گئی تھی؟۔ جج ہی یہاں بیٹھ کر کیوں پوائنٹ آؤٹ کریں، میڈیا بھی ذمہ دار ہے، ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے، بتائیں نا کتنے صحافی مارشل لاءکے حامی کتنے خلاف تھے؟۔ ہمیں تاریح سے سیکھنا چاہیے، بچوں کو بھی سیکھانا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تاریخ پھر یہ ہے کہ جب کوئی مضبوط ہوتا ہے اس کے خلاف کوئی نہیں بولتا، جب طاقتور کمزور پڑ جاتا ہے اس کے بعد عاصمہ جیلانی والا فیصلہ آجاتا ہے۔ عدالتی سوال پر وکلاءنے عدالت کو بتایا جب ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا ا±س وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے حامد خان صاحب اب ہم آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے، حامد خان صاحب آپ اپنے گھر سے ہوئی غلط بات کو غلط کہنے کھڑے ہیں، اسی لیے آپ کا قد بڑا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے پرویز مشرف کے خلاف جب کارروائی شروع ہوئی اس وقت کی حکومت بھی کارروائی نہیں چاہتی تھی، اس وقت کی حکومت کو بھی اس عدالت نے کارروائی کی طرف مائل کیا، سنگین غداری کیس جب شروع ہوا تو اس وقت کس کی حکومت تھی؟۔ ایڈووکیٹ حامد خان نے جواب دیا اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اس کے باوجود انہوں نے 12 اکتوبر کو کارروائی کا حصہ نہیں بنایا؟۔ حامد خان صاحب آپ کی باتوں سے یہی لگتا ہے کہ ایک شخص ہی حکومت چلا رہا ہے، عدالت کو برملا الفاظ میں پرویز مشرف کو جواز دینے والے فیصلے کی مذمت کیوں نہیں کرنی چاہیے۔ وکیل صفائی سلمان صفدر نے دلائل میں کہا پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں ٹرائل چلا کر سزا سنائی گئی۔ عدالت نے وکیل صفائی سے پوچھا کیا آپ کا پرویز مشرف کے ورثا سے رابطہ ہوا۔ سلمان صفدر نے جواب دیا میں نے کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی، میری استدعا ہے پرویز مشرف کی فیملی کو وقت دیا جائے، انہوں نے 4 سال یہ اپیل مقرر ہونے کا انتظار کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے اگر سزا برقرار رہتی ہے تو پرویز مشرف کی پنشن اور مراعات پر بھی اثر پڑے گا، اس سوال پر عدالتی معاونت کریں۔ عدالتی حکمنامے میں قرار دیا گیا مشرف کے وکیل نے بتایا کہ انہیں مشرف نے خصوصی عدالت کا فیصلہ چیلنج کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وکیل کے مطابق مشرف نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر انحصار کی ہدایت نہیں کی۔ مشرف کے وکیل نے چھٹیوں کے بعد تاریخ مانگی اور کہا مرحوم جنرل کی فیملی سے رابطے کی کوشش کریں گے۔ بعد ازاں سماعت دس جنوری تک ملتوی کردی گئی۔