واضح اکثریت حاصل کرنے کاسوال؟
سیاسی جماعتوں کی جانب سے سرگرمیاں تیز ہونے سے الیکشن قریب ہونے کا عندیہ تو درست ہی لگ رہا ہے۔مگر سب سے اہم سوال جو سبھی کے ذہنوں میں گونج رہا ہے کہ کیا انتخابات میں کوئی جماعت واضح برتری حاصل کر سکے گی ؟۔ اس سوال کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایسا ممکن ہوتا نظر آرہا ہوتا تو نواز شریف کو اپنے اتحادیوں کی ضرورت نہ پڑتی ان کے کوئٹہ دورے اور شہباز شریف کی ایم کیو ایم کے سربراہان خالد مقبول صدیقی ،فاروق ستار، مصطفی کمال سے ملاقات اس بات کے امکان کو ظاہر کررہی ہے کہ انتخابات میں کوئی جماعت اکثریت حاصل کر پائے گی۔اس بات کا کئی بار پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی اظہار کر چکے ہیں کہ انتخابات کے بعد حکومت بنانے کے لیے سبھی کو اتحادیوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ یہاں ایک اور ممکنہ نظریہ بھی ہے کہ اگر ملک میں صاف شفاف انتخابات ہوتے ہیں اور تحریک انصاف بھی آزادانہ اور بغیر کسی دباو¿ کے حصہ لیتی ہے تو انتخابات کے بعد نتائج یکسر مختلف ہوسکتے ہیں۔ اس تھیوری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو وقت ہی طے کرے گا کہ انتخابات سے پہلے یا پھر اس کے بعد کیا ہوگا۔لیکن یہ بات واضح ہے کہ انتخابات میں پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے آزادانہ حصہ لینے سے ہی اس الیکشن کی صحیح ساکھ برقرار رہے گی۔ورنہ کچھڑی کہیں نہ کہیں پکتی ضرور رہے گی اور سوالات جنم لیتے رہیں گے۔جو بات کی جارہی تھی کہ ن لیگ سمیت کوئی سیاسی جماعت واضح برتری حاصل کر لے گی تو اس کا ایک اشارہ تو سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما راجہ پرویز اشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے کہ الیکشن کے بعد مخلوط حکومت بن سکتی ہے۔انہوں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ پی پی اور (ن) لیگ مخلوط حکومت بنا سکتی ہےں۔ راجہ پرویز اشرف نے اس میں مزید کہا کہ اچھا گمان رکھیں، الیکشن 8 فروری کو ہوجائیں گئے۔الیکشن کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں۔الیکشن میں سب کوبرابری کی بنیاد پرموقع ملنا چاہیئے، کسی جماعت کے الیکشن لڑنے پرقدغن نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن میں کسی کو دو تہائی اکثریت ملتی ہے تو وہ اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کرسکتاہے۔دوسری جانب بتایا جارہا ہے کہ ن لیگ کے منشور سے متعلق اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نوازشریف نے منشور کمیٹی سے متعلق ابتدائی اہم نکات کی منظوری دی ہے۔پارٹی ذرائع کے مطابق ابتدائی طورپر 15 اہم نکات منشور میں شامل کئے گئے، منشور کے اہم نکات میں عدالتی نظام میں اصلاحات سرفہرست شامل ہیں۔ آئینی اصلاحات، گڈ گورننس، پولیس اصلاحات منشور کا حصہ ہوں گی۔ موجودہ معاشی چیلنجوں کا حل اور روڈ میپ دیا جائے گا، مہنگائی کوکیسے کم کیا جائے گا،غربت کا خاتمہ ، روڈ میپ منشور کا حصہ ہوگا، خارجہ تعلقات کا فروغ، امن کا قیام، اور قومی دفاع بھی منشور کا حصہ ہوں گے، سول سروسز میں اصلاحات سے متعلق بھی اہم نکات منشور میں شامل کئے جارہے ہیں۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کا فارمولا بھی منشور کا حصہ ہوں گے، موسمیاتی تبدیلی، آبادی پر کنٹرول اور صحت اور خوراک کا تحفظ منشور کا حصہ ہوں گے، کسانوں، مزدوروں، کمزور طبقوں اور اقلیتوں کے معاشی حقوق سے متعلق اہم پالیسیاں شامل ہوں گی۔ تعلیم، صحت، ثقافت اور نوجوانوں کی ترقی کے لئے منشور میں اہم پالیسیاں شامل ہوں گی۔ن لیگ کے منشور سے بظاہر تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ ن لیگ جس لیول پلئنگ فیلڈ کے گلے شکوے کرتی آئی ہے وہ ان کو مل ہی گیا ہے۔ کیا اس لیول پلئنگ فیلڈ سے مسلم لیگ ن اپنی سابقہ اتحادی حکومت کی کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات کا جواب عوام کو اپنی انتخابی مہم میں دے سکے گی یا نہیں ؟ یہ بات غور طلب ہے سابق وزیراعظم اور صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف کا موقف اس طرح کا ہی ہے کہ کسی کو علم نہیں تھا تحریک انصاف تحریک تباہی بن جائے گی۔ لیول پلیئنگ فیلڈ یہ ہے کہ نواز شریف اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہو رہے ہیں اور میں، انصاف کے لیے لاہور کی عدالت میں پیش ہو رہا ہوں۔ ہمیں عدلیہ کا ہمیشہ سے بے حد احترام ہے ، ہم عدالتوں میں حاضری کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف سے لے کر پورے شریف خاندان نے جو صعوبتیں جھیلیں وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں، میاں نواز شریف کوبیٹی کے سامنے گرفتار کیا گیا،انہوں نے خود کو قانون کے سامنے پیش کر دیا ہے، 2007 میں نواز شریف کی مخالفت اور دشمنی میں بلوچستان کی حکومت بھی گرا دی گئی۔سابق وزیرِاعظم کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے آلہ کاروں پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے ، ملک کیخلاف ایک سازش اور غداری کی گئی۔انہوں نے کہا کہ الیکشن بروقت ہونے چاہئیں، ہم پوری تیاری کے ساتھ انتخابی مہم میں داخل ہو رہے ہیں۔