• news

چوتھی مرتبہ وزیراعظم کیلئے لاہور پنجاب کے عہدیداروں کا جائزہ لینا ہو گا

 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے تمام سیاسی پارٹیاں زور و شور سے تیاریاں تو کر رہی ہیں مگر کچھ ابہام و وسوسے بھی شرپسند عناصر کی جانب سے پھیلائے جارہے ہیں کہ انتخابات التوا کا شکار ہوسکتے ہیں اور اس کااعلان بھی الیکشن کمیشن سے کروایا جائے گا۔ تمام سیاسی پارٹیاں کو ٹکٹوں کی تقسیم کا نظام شفاف بنانے کی سخت ضرورت ہے تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی بولیاں لگنے کی آڈیوز تو آپ نے سن رکھی ہونگی اب مسلم لیگ ن میں ٹکٹس کی تقسیم پر مبینہ طور پر کروڑوں لیے جارہے ہیں۔ شریف برادران کے حوالے سے ماضی میں کبھی ایسی شہرت سامنے نہیں آئی اس مرتبہ بھی ٹکٹس کی کمیٹمنٹ شریف برادران یا انکے خاندان سے کوئی نہیں کررہا پاکستان کے دل لاہور سے اس مبینہ کرپشن پر چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ خواجہ سعد رفیق لاہور ڈویژن کے کوآرڈینیٹر تو ضرور ہیں مگر وہ اس پر دلچسپی نہیں لے رہے شاید وہ اس نظام سے نالاں ہیں۔ 
اسلام آباد میں حکومت قائم کرنے والی پارٹی کی ریت ہے کہ وہ لاہور سے کلین سویپ ضرور کرتی ہے مسلم لیگ ن کا گڑھ لاہور کو ہی سمجھا جاتا ہے حمزہ شہباز نے سیاسی طور صوبائی دارلحکومت اور پنجاب میں بے تحاشہ محنت کی ہے جس وجہ سے ن لیگ ہمیشہ پنجاب میں نمایاں سیٹوں سے پہلے نمبروں پر رہی ہے۔ حمزہ شہباز شریف برادران کی جنرل مشرف کے ہاتھوں جلا وطنی پر بھی یہیں رہے تھے اور مشرف حکومت کی دست راست نیب کے انتقام کا نشانہ بنتے رہے۔ اس دوران بچے کھچے کارکنوں پارٹی عہدیداروں سے بھی رابطے میں رہ کر انکے حوصلے بڑھاتے رہے۔ حمزہ شہباز مشرف حکومت کے عناد کا شکار بھی رہے اور بچی کچھی پارٹی کو بھی چلاتے رہے حمزہ شہباز مختلف حکومتوں کے زیر عتاب رہے قید و بند کی صعوبتیں سہتے رہے ، حتیٰ کہ عمران خان کے جنونیوں نے ان کے خلاف مہم جوئی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔مگر وہ اپنے تایا کی طرح کارکنوں کے دلوں میں بستے ہیں جبکہ انکے والد شہباز شریف کارکنوں سے فاصلہ رکھتے ہیں اور کارکنوں والے کام بھی اپنے پسندیدہ افسران سے کروانا پسند کرتے ہیں میاں نواز شریف اگر چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں تو جہاں وہ ناراض ساتھیوں کو واپس لا کر منانے کا سلسلہ چلا رہے ہیں وہاں پاکستان کے دل لاہور میں مسلم لیگ ن کے تنظیمی ڈھانچے کو بھی مانیٹر کریں کہیں تاریخ دوبارہ نہ دہرائی جائے کہ لاہور میں ن لیگ کے گڑھ کو پی ٹی آئی کے اراکین نے شکست دے ڈالی تھی حمزہ آجکل سیاست سے کچھ فاصلے بڑھا رہے ہیں انکا اس نازک وقت پر یہ فیصلہ ن لیگ کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے ۔لاہور میں ن لیگ کے بہت سے الیکٹیبلز حمزہ شہباز کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں۔ ن لیگ میں ایک مخصوص ٹولہ پارٹی عہدیداروں پرانے کارکنوں کو پیچھے دھکیل کر ٹکٹوں کی منصفانہ تقسیم پر اعتراضات پیدا کروانا چاہتا ہے جنوبی پنجاب اور لاہور میں یہ شکایات سامنے آرہی ہیں کہ نواز شریف کے جانثاروں کو پیچھے دھکیل کر پیرا شوٹرز کو نوازنے کی تیاریا ں ہورہی ہیں ۔مسلم لیگ ن کے پرانے ورکر اور شریف برادران کے ایک جانثار ساتھی نے مجھے ایک خط لکھا ہے اسکا خیال ہے کہ میرے محبوب قائد کو یہ خط ضرور زیر غور رکھنا چاہیے اس کارکن کا نام شفیق خان ہے اور یہ مشرف دور میں تشدد گرفتایوں کے علاوہ اپنا کاروبار بھی بند کرواچکا ہے وہ خط من و عن پیشِ خدمت ہے۔ 
قابل احترام قائد سلام : محترم میاں نواز شریف صاحب پلیز مشکل وقت میں تحریک نجات مشرف آمریت عمرانی فتنہ کے دور حکومت میں جن کارکنان نے ساتھ دیا اور جبر کا مقابلہ کیا سختیوں آور مقدمات درج ھونے کے باوجود آپ کے ساتھ رھے ہارٹی کو مشکل وقت میں ساتھ دیا انھیں الیکشن میں ٹکٹ دیے جائیں اور مجبوری جہاں ھو مخصوص لیڈیز سیٹ پر انھیں اکاموڈیٹ کیا جائے اور مخصوص نشستوں پر ایک گھر سے صرف ایک سیٹ دی جائے نا کہ ایک ھی گھر میں جنرل سیٹ اور مخصوص لیڈیز قومی اسمبلی صوبائی اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ سیٹ دی جائے صرف ایک گھر میں ایک مخصوص لیڈیز سیٹ دی جائے اور مخصوص نشستوں پر جو دو سے تین مرتبہ آپ نے بنا دیا ان کو آرام کا موقع دے کر اپنے مخلص وفادار جاںنثار ورکرز کے گھر والوں کو مخصوص لیڈیز سیٹ پر نمائندگی دے کر مشکل وقت میں ساتھ دینے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور جن اضلاع سے مخصوص لیڈیز سیٹ پر نمائندگی نھیں دی وھاں پرانے نظریاتی وفادار ساتھی کے گھروں سے سیٹ دی جائے بہاولنگر سے آج تک مخصوص لیڈیز سیٹ پر کسی کو نمائندگی کا موقع فراہم نھیں کیا وھاں سے جس کارکن نے مشکلات میں آپ کا ساتھ نھیں چھوڑا عرصہ 38سال سے آپ کے ساتھ ھیں۔ شفیق خان ایسے ورکرز کی حوصلہ افزائی کر کے ورکرز کو عزت و احترام دیا جائے گا پارٹی مضبوط مستحکم ھو گئی اور ساتھ دینے والوں کی حوصلہ افزائی ھو گئی آپ ان گذارشات پر خصوصی شفقت فرمائیں گے شکریہ شفیق خان کہتے ہیں کہ کارکن کا اوڑھنا بچھونا انکے قائدین اور پارٹی ہوتے ہیں اگر وہ ان پر شفقت کریں تو نا صرف معاشرے میں بلکہ اپنے ضمیر کے سامنے سالوں سے پارٹی کا جھنڈا اٹھانے والے معتبر ہو جاتے ہیں۔ویسے بھی لاہور کی پگ ہمیشہ ارائیں یا کشمیری کو سونپی گئی ہے اسکی بنیادی2 وجوہات میں سے ایک اھم وجہ یہ بھی ہے کہ لاہور میں ارائیں اور کشمیری ووٹ بینک بہت زیادہ ہے اس مرتبہ کھوکھر برادری سے صدر بنا تو دیا گیا مگر لاہور کے پرانے مسلم لیگی اس فیصلے کو ہضم نہیں کر سکے اس سے آنے والے انتخابات پر ن لیگ کو کوئی سرپرائز مل سکتا ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن