سپہ سالار کا پہلا سال
” دی اکانومسٹ “ میگزین کے نئے شمارے کے کَوَر پر جو تصویر دی گئی ہے اور جس میں آنے والے حالات کی کوڈنگ کی گئی ہے اسے بین الاقوامی سیاست اور معیشت سے دلچسپی رکھنے والا ہر کس و ناکس ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کر رہاہے۔ ماہرین کا حالات اور ماحول کو دیکھتے ہوئے سیاسی و معاشی تجزیے کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ دی اکانومسٹ نے جو اشارے دیے ہیں ان میں سے سب سے اہم اشارہ اکلوتی آنکھ ہے جس کا کنکشن چاروں کونوں میں رکھے دماغوں کے ساتھ جڑا ہے۔ بہت سے ماہرین کے مطابق یہ آنکھ دجال کی آنکھ کی علامت بھی ہے ، زاؤنسٹ کمیونٹی یا لیومیناٹیز کی نمائندگی بھی کرتی ہے اور دنیا بھر میں رائج کیپیٹلسٹ سسٹم کو چلانے والوں کی علامت بھی ہوسکتی ہے جو پوری دنیا پر نہ صرف نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ اسے کنٹرول بھی کرتے ہیں۔ پھر دنیا کے چار بڑے لیڈرز روسی صدر پوٹن ، یوکراینی صدر زیلنسکی ، صدر شی جن پنگ اور صدر بائیڈن کی تصاویر ہیں جن کے پہلوؤں میں میزائل ایستادہ دکھائے گئے ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ اور ایک خاتون کا خاکہ ہے۔ یورپ اور مشرق ِ وسطیٰ میں جنگ کے بادل چھائے رہنے کا اشارہ بھی ہے۔ یوکرین اور اسرائیل کی جنگوں کے علاوہ ایک جنگ ایشیاءمیں بھی متوقع بتائی گئی ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہی ہے کہ جنگ و جدل ، سیاست اور معیشت چلانے والوں کے دماغوں کا کنٹرول ایک آنکھ کے پاس ہے اور اب یہ کوئی ایسا سیکرٹ بھی نہیں رہ گیا۔ ایک آنکھ کا جھنڈا یا نشان رکھنے والے پوری دنیا پر اس حد تک مسلط ہوچکے ہیں کہ ان کے بغیر پتہ تک نہیں ہل سکتا۔ ملکوں اور ملکوں کے حکمرانوں کی تقدیروں کے فیصلے ہوں یا خطوں کے مستقبل کی منصوبہ بندی سب کچھ ان کی مرضی سے ہی چلتا ہے۔
اب تو وہ اتنے نڈر ہوچکے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کل کرنا ہے آج بتا دیتے ہیں اور وہ بھی نہیں چھپاتے جو اب تک کرچکے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ دنیا پر اپنی بادشاہت کا اعلان بھی کرنا چاہتے ہیں، دنیا کو اپنی طاقت سے مرعوب بھی کرنا چاہتے ہیں اور دنیا بھر کے عوام و خواص کو اطاعت کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی کر رہے ہیں۔ یہ قوتیں دنیا پر اپنے کنٹرولز اور بادشاہت کی پرسیپشن ڈویلپ کرنے کے لیے ایسے کام پہلے بھی کرتی دکھائی دیتی چلی آرہی ہیں اور واہمے یا التباس تخلیق کرنے میں تو انہیں ید ِ ط±ولا حاصل ہے۔ اس حوالے سے سیمسن کارٹون سے ج±ڑی کہانیوں کی مثال دی جا سکتی ہے۔
اگرچہ دنیا کی آٹھ ارب کی آبادی میں جن مخصوص لوگوں کو ان کی قوت اور ان کے منصوبوں کے بارے علم ہے ان میں دنیا بھر کا حکمران طبقہ شاید نوے فیصد سے زیادہ ہے جو ان کے بارے میں کم از کم بنیادی معلومات ضرور رکھتا ہے اور ان کے قریب بھی ہونا چاہتا ہے کیونکہ اس طبقے کو پتہ ہے کہ ان کی آشیرباد کے بغیر اقتدار تو کیا اقتدار کی پر چھائیں بھی نصیب نہیں ہوسکتی۔ دنیا کے سو بڑے سرمایہ دار خاندانوں کے علاوہ یقناً دنیا کا ہر بڑا سرمایہ دار اس گروپ میں شامل ہے۔ یہ صرف سرمایہ دارانہ بین الاقوامی تسلط ہی نہیں بلکہ ایک ایسا نظریاتی گورکھ دھندا بھی ہے جو جانے کتنی صدیوں سے جاری و ساری ہے اور ہر اس سوچ ، فلسفے ، نظریے اور عقیدے کے خلاف برسرِ پیکار ہے جو اس کے خانے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جب سے وجود میں آیا ہے اس کے لیے کسی نا کسی طرح کی مشکلات پیدا کی جاتی رہی ہیں۔ کبھی پاکستانی سیاستدانوں کی ریس پر شرط لگا کے تو کبھی اسٹیبلشمینٹ کے منہ زور گھوڑے پر کاٹھی ڈال کے پاکستان کے لیے چیلنجز پیدا کیے جاتے رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمینٹ کی طرف سے کھیلا گیا کیموفلاج جکساپزل ان کے منصوبے فیل کرتا رہا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ ایمان کی قوت اور جذبے کی صداقت پر استوار تربیت کا نظام اور ایک خدا پر ایمان کے ساتھ ساتھ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وصلم کی ذات پاک سے محبت اور ان کی تعظیم ہے۔ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا اس بات کی گواہی ہے کہ جہاں پاکستان کو تن من دھن سمجھنے والوں کا بس چلا انہوں نے دجالیوں کے بنے ہوئے جالوں میں سے گنجائشیں نکال کے پاکستان کو مضبوط کیا۔ جواباً ان طاقتوں نے بھٹو کو باغیانہ خیالات رکھنے اور سر اٹھا کر جینے کے اعلان کی سزا دی۔ ان طاقتوں کو جنرل ضیاءالحق پر بھی غصہ تھا کہ ایران عراق جنگ میں پاکستان کا جھکاؤ ایران کی طرف کیوں رہا ہے۔ جنرل مشرف پر ان کی تکلیف آن ریکارڈ ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دی گئی امداد غربت کے خاتمے اور دہشت گردی کا شکار علاقوں کے انفراسٹرکچر پر کیوں خرچ کی گئی۔ یعنی اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ پاکستان کے حوالے سے پڑنے والا دباؤ سیاستدانوں نے کم اور اسٹیبلشمینٹ نے زیادہ برداشت کیا ہے ۔ اس بات کا اس ایک آنکھ والے طبقے کو پورا یقین ہے کہ پاکستان پر پوری طرح غلبے میں ان کو ہمیشہ ناکامی ہوئی ہے۔ اس بات کا غم و غصہ وقتاً فوقتاً وہ پاکستانی افواج پر نکالتے بھی رہتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستانی جرنیل ناقابل اعتبار ہیں۔ وہ بظاہر ان کا یعنی بظاہر امریکہ وغیرہ کا ساتھ دے کر بھی اپنے وطن کا تحفظ اور فائدہ کرنے سے روکے نہیں جا سکے۔
میرے اپنے تجزیے کے مطابق جب یوکرین رشیا وار کے بعد اسرائیل حماس وار کی منصوبہ بندی کی جارہی ہوگی تو وہاں پر تھریٹ کی پیمائش اور اَن کنٹرولڈ ویری ایبلز کے انڈیکیٹر میں سب سے نمایاں پاکستان جگمگ کر رہا ہوگا۔ پاکستانی افواج کی صلاحیت اور اسرائیل کے ساتھ گزشتہ کا سارا حساب کتاب دیکھ کر طے کر لیا گیا ہوگا کہ اس جنگ سے پہلے پاکستان کو چاروں طرف سے جکڑ کر رکھنا ضروری ہوگا ورنہ پاکستان کے اٹھ کھڑے ہونے سے پورا عالم اسلام اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا اور پھر ایران ، عرب ممالک اور مشرق وسطی کے اتحاد جنگی وسائل اور خصوصاً افواج پاکستان کی جنگی صلاحیت اور جذبہ شہادت کے سامنے اسرائیل کا جم کر کھڑا رہنا ممکن ہی نہیں ہوگا اور اس جنگ سے مقصود و متوقع اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان پر گرائی جانے والی سیاسی و معاشی بجلیوں کے پیچھے یقیناً بڑی وجہ اسرائیل کا تحفظ ہے اور دوسرا اکنامک پیرا ڈائیم شفٹ کے اقتصادی نقشے میں پاکستان کو بڑی اکنامک پاور بن کر ابھرنے سے روکنا بھی یقیناً اسی منصوبے کا حصہ ہوگا۔ پھر وہ حالات پیدا کردیے گئے جو ہم سب نے بھگتے اور بھگت رہے ہیں لیکن جس کا سب سے بڑا پریشر بطور سپہ سالار جنرل عاصم منیر کے دل ، دماغ اور کندھوں پر آ پڑا۔
ان سارے حالات کو دیکھتے ہوے اگر غور کیا جائے کہ جنرل باجوہ تو امریکہ کی طرف سے پڑنے والے دباؤ کو اپنی ذات کی حدتک مینیج کرکے ریٹائر ہوگئے لیکن کھیل تو سارا شروع ہی بعد میں ہوا۔
ایک طرف ملکی سیاسی دباؤ تھا تو دوسری طرف معاشی پریشر۔ پاکستان کے دیوالیہ ہوجانے کے دعوے کیے جا رہے تھے۔ ملک میں تنخواہیں دینے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔ قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے لیے گویا پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی۔ خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش ِ نظر امریکہ اور چین جیسے دو ہاتھیوں کی لڑائی کا میدان بننے سے پاکستان کو بچانا تھا اور ان سب سے بڑھ کر بھارت جیسے مکار دشمن کی طرف سے افغانستان سے مل کر پوری تاک لگا کر کی جانے والی دہشت گردی کا سامنا کرنا، وہ بھی اتنے غیر معمولی حالات میں کسی ٹوٹی پھوٹی کمزور اور بےپتوار کشتی کو بلاخیز طوفان سے بچا کر لے جانے جیسا معجزہ ہے۔ سرکاری بیان کچھ بھی آتے رہیں لیکن یقیناً یہ غلط فہمی تو کسی کو ہے ہی نہیں کہ موجودہ نگران حکومت کسی کام جوگی ہے۔