• news

 رستے میں پسندآگئی کیوں منزل ِ مرگ

پاکستانی سول سروس کے نوجوان افسر بلال پاشا کی پراسراروفات کی خبرنے سارے عالم کوافسردہ کردیا ہے۔یہ نوجوان ان دنوں صوبہ خیبرپختون خواہ کے ضلع بنوں میں کنٹونمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو افسر کے عہدے پرفائزتھا۔ بلال پاشا کو پڑھے لکھے نوجوان طبقے میں خاصی قبولیت حاصل تھی،اس کی ایک وجہ تواس کی وہ ملازمت تھی، جس کا خواب ہماراہر نوجوان دیکھتا ہے،دوسرا وہ آن لائن کلاسز کے ذریعے عالمی تعلقات عامہ اور سیاسیات جیسے عمدہ مضامین کی درس وتدریس سے بھی منسلک تھا۔اس شعبے میں نئی نسل نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بلال کاتعلق ضلع خانیوال کے نواحی قصبے عبدالحکیم کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔اس کاباپ ایک محنت کش انسان ہے۔اس نوجوان نے بڑی جدوجہد کے بعد یہ منصب پایا تھا۔اس عرصے کے دوران میں کتنے سنہرے دن اور سرمئی شامیں اس کے گھرکے دروازے پردستک دے کرگزرگئی ہوں گی لیکن اس نے اپنے خوابوں کوتعبیر دینے کے لیے انھیں نظراندازکردیاہوگا۔
والدین ایک بچے کی جس طرح پرورش کرتے ہیں ،اس کا ادراک صاحب ِ اولادہی کرسکتے ہیں۔بلال پاشاکی اس ناگہانی موت کے حوالے سے بہت سی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔شروع میں کہاگیاکہ اس کی وفات دل کودورہ آنے سے ہوئی۔بعدمیں اسے خود کشی قرار دیاگیا،مبینہ طورپر کچھ لوگ اسے قتل بھی قرار دے رہے ہیں۔ابھی اس سلسلے میں حتمی طورپرکچھ نہیں کہاجاسکتا۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کچھ عرصے سے اعلیٰ سروسز کے سرکاری ملازمین ان مسائل کاشکارہورہے ہیں۔اس کی کیاوجوہات ہیں،حالات روزبروز بدترہوتے جارہے ہیں۔ سول سروس کا ڈھانچہ بنیادی طورپر انگریز سرکار کا تشکیل کردہ تھا۔انھوں نے ضروری سمجھا کہ مقامی آبادی میں اپنا رعب ودبدبہ پیدا کرنے کے لیے، اس طرح کے افسران پیدا کریں جو رہن سہن کے لحاظ سے شاہانہ انداز کے حامل ہوں۔ انھیں اس ماحول کے مطابق سہولیات بھی فراہم کی جاتی تھی۔اب محسوس ہوتا ہے کہ خاندانی حالات،سیاسی مشکلات، مافیاز کی من مانیاں،دوردرازکے تقرر اور سہولیات میں کمی نے ان لوگوں کے لیے حالات کو مشکل ترین بنادیا ہے۔غورکریں جب اعلیٰ درجے کے ملازمین کی یہ صورت حال ہو تو دوسروں کا حال کیاہوگا۔ فارسی میں کہتے ہیں،”ہرکہ درکانِ نمک رفت نمک شد“( نمک کی کان میں جانے والی ہرشے نمک ہوجاتی ہے)،عام طور سرکاری ملازمین بھی اسی رنگ میں رنگے جاتے ہیں،لیکن ایمان دار لوگوں کے لیے ہرروزایک نئی مصیبت جنم لیتی ہے۔یہ روزانہ دفتروں کے کربل میں شہید کیے جاتے ہیں۔بقول سیدمراتب اختر:
میز پراک فائلوں کا ڈھیروں ،ذہنی کرب ،خوف
آدمی سے کام لینے کا قرینہ چاہیے
یہ” ایک معیشت اور سو افتاد“ والی بات ہے۔ایک حساس نوجوان جوکوئی طاقت ور خاندانی پس منظر بھی نہ رکھتا ہو،اس کے لیے کسی ناجائز حکم کا انکار کیا معنی رکھتا ہے ،یہ تو وہی جانتا ہے۔اس صورت حال میں انکار سننا کون پسندکرے گا۔بلال پاشا کی موت کی وجہ دل کادور ہ ہے یا اس نے ڈیپریشن کی وجہ سے خودکشی کی،ایک بات طے ہے کہ ہم سماجی طور پر مسلسل زوال آمادہ ہوتے جارہے ہیں۔مجھے پروفیسر نوازانجم نے بلال کی وڈیو بھیجی ہے ،یہ اس کی وفات سے کچھ وقت پہلے کی ہے۔اس کی گفتگو کا من وعن خلاصہ کچھ یوں ہے۔وہ کہتا ہے،”بنوں میں اپنی ٹیم کامیں بہت احترام کرتا ہوں،کھانا بنانے والے ،اورگاڑی چلانے والے کو بھی کبھی سٹاف نہیں سمجھا، دل میں خیال آتاتھا کہ پتہ نہیں میں کتنا بڑا آدمی بن گیا ہوں۔کل جب میری اپنے ڈیپارٹمنٹ کے ڈی جی صاحب سے ملاقات ہوئی توانھوں نے مجھے جوعزت اوراحترام دیا، میرا یہ گمان میرے منہ پرایک تھپڑ کی طرح لگا۔مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ کسی کو اگراحترام دیں تواللہ مخلوق کے دل میں آپ کا اتنا ہی احترام پیداکردے گا۔“اس جوان رعنا کے چہرے پرایک اداسی ٹپک رہی ہے،اس نے موت کی چاپ سن لی ہے یا کسی اور سبب سے متوکل باللہ ہونے کا اعلان کررہا ہے۔مرحوم نے ابتدائی تعلیم ایک مدرسے سے حاصل کی،ایمرسن کالج ملتان سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا،اس کے بعد زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے گریجوایشن کی۔ ایک نجی کمپنی سے ملازمت کا آغاز کیا۔باپ کی خواہش پر سرکاری ملازمت اختیارکی۔کچھ عرصہ پولیس میں سب انسپکٹر بھی رہا،۔چندسال پہلے اس نے سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی۔بتی اورسبزرنگ کی نمبر پلیٹ دیکھ کر بہت سارے لوگوں کو رشک توآتاہوگا لیکن اس کے قلبِ مضطرب کے اندر کسی نے جھانک کرنہیں دیکھاکہ یہاں کیا کیا قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں۔بلال پاشا کے والدین کو کیا پرسہ دیں،ان کے لیے بلال کی دنیاکی ہرچیز” پیراہنِ یوسف“ کی طرح ہوگی لیکن یوسف کہیں نہیں ملے گا۔ ان کی کیفیت تو جمال احسانی کے اس شعر میں بہت پہلے بیان کردی گئی ہے:
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جاکے کہیں دن سنورنے والے تھے
سجادانصاری نے اپنی کتاب ”محشر خیال“ میں لکھا ہے کہ ’مجھے قیامت کا اس لیے بھی انتظار ہے کہ میں قرة العین طاہرہ بابیہ کے قاتلوں کا انجام دیکھنا چاہتا ہوں۔‘ مجھ جیسے بہت سے لوگ حشر کے روز ان مظلوموں کو دیکھیں گے، جنھوں نے ظالموں کے گریبان پکڑے ہوئے ہوں گے ،وہ اللہ سے التجا کریں گے،’میرے رب ! ان سے پوچھ انھوں نے ہم پرناحق ظلم کیوں کیا تھا۔ہمیں واقعی قیامت کا انتظار ہے، دعاہے کہ ہمارا شمار ظالموں میں نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر افتخار شفیع- سرمایہ¿ افتخار

ڈاکٹر افتخار شفیع- سرمایہ¿ افتخار

ای پیپر-دی نیشن