بَعداَزخدا
مجلس ترقی ادب کے زیراہتمام امریکہ میں مقیم شاعر عابدرشید کے نعتیہ مجموعہ ”بعدازخدا“کی تقریبِ پذیرائی ادبی چائے خانہ میں منعقدکی گئی۔اس پروگرام کی صدارت خالد شریف نے کی اور اظہار خیال سرورحسین نقشبندی،رابعہ رحمن،ابوالحسن خاور،ارشدنعیم نے کیا۔اس پروگرام کی نظامت صوفیہ بیدار نے کی۔عابدرشید کی نعتیہ شاعری پر جن موقر شعراءنے اپنا اظہارکیا ان میں مامون ایمن،افتخار عارف،ریاض مجید،نسیم سحر،طاہرسلطانی، زاہدفخری، واجدامیر، تنویرپھول، محمدرفیق مغل اور ڈاکٹرسرورحسین نقشبندی شامل ہیں۔
اس کتاب کا انتساب انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کے نام کیا اور لکھاکہ جنہوں نے میرے دل میں عشقِ مصطفیﷺ کی شمع روشن کی ذوقِ ثنائے مصطفیﷺ کو اپنی حوصلہ افزائی سے جلابخشی، مجھے جینے کا قرینہ سکھایا، اورہرموڑپرمیری راہنمائی کی۔
ذہنی اور علمی کم مائیگی ہمیشہ پاو¿ں کی زنجیر بن جایاکرتی ہے لیکن جب خدا کی مدد، عشقِ رسول اورجنون اپنی انتہاکو چھورہاہو تو انوارِ نبی نورِخدا سے باطن روشن ہوجاتاہے، جیساکہ عابد رشید کا ہوا اور ان کے قلم سے وَردہِ نعت عودنگر سے مدحتِ عشق لئے پ±رواکے ساتھ لہراتی روحوں کو مہکانے لگی اور عابد رشید نے لفظوں کی گل پاشی یوں کی۔
زمیں ہوتی ستارے نہ آسمان ہوتے
حضور آپ نہ ہوتے توہم کہاں ہوتے
اور ان کایہ نعتیہ شعر سنیے
ہے گفتگوکا سلیقہ تو ان کی مرحت سے
جو حمدونعت نہ کہتے توبے زباں ہوتے
زیرنظرکتابِ مستطاب میں خلاق عابد رشید نے حرف ومعنی کی ب±نت کاریوں سے یوں ذوقِ عشق کی آبیاری کی ہے جیسے باغباں گلستان کی کرتاہے۔ خیال کی حسن آفرینی کو آب زم زم اور عرقِ انفعال میں بھگوکر تابکاری عشق سے منورکرنے والے عابد رشید حمدیہ،نعتیہ اشعار اورمنقبت وسلام میں علامت، استعارے،تشبیہ اور ردیف قافیہ کے ساتھ تخلیق کے ہرعمل کوقرطاس پہ پھیلاتے چلے گئے۔ ان کے کلام کی مہک یوں پھیلی کہ
ذرے ذرے سے صدا آتی ہے یکتاہے تو
میرا خالق،مرا مالک، مرا داتا ہے تو
عابدرشید جھومتے جھومتے اللہ ہو سے دعائیہ کلمات نکال کر نیلے گگن پہ تاروں کی طرح ٹانکنے لگتے ہیں۔
بصارت کو بصیرت کاقرینہ بھی عطاہو
وہ جیسا چاہتے ہیں ویسا جینا بھی عطاہو
قیامت تک لحدسرکارکی خوشبو سے مہکے
مجھے اک بوند بھر ان کا پسینہ بھی عطاہو
سبحان اللہ دل جھوم جھوم جاتاہے روح کے طاق پہ بجھے پڑے سارے دیئے جل اٹھتے ہیں۔فلک جھومتاہے، تارے جگمگاتے اور چاندمحورقص ہوتاہے اور مجھ جیسا پڑھنے والا ایک ادنیٰ اور گنہگار غلام وکنیز اس داتا وآقا اورنبی صلعم کی چوکھٹ پہ دھمال ڈالتے ڈالتے دنیا سے بیگانہ ہوجاتاہے، جب تک اس کرامت کا ادراک قاری اور قلمکار کو ہوتاہے تو دریا کی موجوں کی کرشمہ سازی یوں ہوتی ہے کہ گوہرِانوار لفظوں کا روپ دھارکرعابد رشیدکے قلم سے نکلنے لگتے ہیں۔
مرے قلم کو خدا ایسی روشنائی دے
میں نورلکھوں رخ والضحیٰ دکھائی دے
فلک بھی جھوم اٹھے مدح شاہ والاؤپر
میرے سخن کو فرشتوں کی ہم نوائی دے
یاد رکھئے کسی بھی معرفت کو انقلاب کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ انقلاب کو معرفت، مدحت، اضطراب،طریقت اور شریعت کی مشعل کی ضرورت ہوتی ہے، عابدرشیدنے اپنے قلم اور لفظوں کے ذریعے محبوب کی چوکھٹ پہ جوسجدہ عشق کیاہے تو لگتاہے کہ ان کی جبینِ کو نیاز مل گئی پھر وہ گڑگڑانے لگے کہ
تمام عمر کے سجدے سماگئے جس میں
جبین عجز نے سجدہ وہ کرکے دیکھ لیا
جبیں حرم کی زمین سے ابھی اٹھی نہ تھی
کہ رحمتوں نے مرا گھر ا±تر کے دیکھ لیا
جب لفظوں کے دلربائی چہرے جذبوں کی بالکنی سے احساسات کے پردے سرکانے لگتے ہیں تو عابدرشید کی پیاسی آنکھیں مدینہ دیکھنے کو بے قرار ہونے لگتی ہیں پھر وہ سینے پہ ہاتھوں سے دف بجاتے لکھتے ہیں کہ
ہے سامنے وہ سنہری جالی، ہے جس کے ا±س پار عرش عالیٰ
درودلب پر رواں ہے میرے، میں عالم رنگ ونور میں ہوں
وجود اجلاساہوگیاہے،کوئی سیاہی کو دھوگیاہے
درِنبیﷺ پر نیاجنم ہے،میں اک عبائے طہورمیں ہوں
میں اپنے ماضی پرآج نادم،میں حال اپنے پہ آج ناذاں
دیارِ اقدس پہ دست بستہ،عجیب عجز وغرورمیں ہوں
اس کے بعد جب عابد رشید کویہ محسوس ہواکہ اب توکچھ حساب کتاب کا وقت ہوگا تو وہ گھبرائے نہیں کیونکہ کالی کملی اور ریشمی زلفوں والے حضور پاک ? کی محبت کی طاقت ان کے بدن میں تھی اور لکھنے لگے کہ
یہ جومیری زیست کے اجالے ہیں
ان کی نسبت کے سب حوالے ہیں
اے پہاڑو!وہیں ٹھہرجاو¿
مصطفیﷺ رحم کرنے والے ہیں
کھل اٹھے بندکے پھول مدحت کے
ن±طق میرے پہ جتنے چھالے ہیں
٭....٭....٭