موسمیاتی تبدیلیاں آئندہ نسلوں کے لیے خطرہ
دبئی میں عالمی موسمیاتی کانفرنس آف پارٹیز (کوپ) 28 میں خطاب کے دوران برطانیہ کے شاہ چارلس سوم نے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کا تذکرہ کرتے ہوئے دنیا کے سامنے مستقبل کا لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی آنے والی نسلوں کے لیے ایک خطرناک مسئلہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان، بنگلادیش اور دیگر ترقی پذیر ملکوں کو بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک نتائج بھگتے۔ سیلاب کے باعث پاکستان کو شدید نقصانات اٹھانا پڑے۔ شاہ چارلس نے موسمی تبدیلیوں کی تباہی اور ماحولیاتی مستقبل کو بہتر کرنے کا لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں زیرو کاربن پالیسی اپنانا ہو گی اور دنیا کو گرین ٹیکنالوجی کی طرف منتقل ہونا ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے 4.5 ٹریلین ڈالرز سالانہ کی ضرورت ہے۔ ادھر، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ عالمی درجہ حرارت پر کنٹرول ناگزیر ہوگیا۔ پیرس موسمیاتی معاہدے سے دور ہیں لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ ہم پیرس موسمیاتی معاہدے کے مقاصد سے میلوں دور ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پراقدامات کرنا ہوں گے۔ کانفرنس کے دوران متحدہ عرب امارات نے دنیا بھر میں آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے 30 ارب ڈالر کے کلائمیٹ فنڈ کے قیام کا اعلان کیا۔ موسمیاتی تبدیلیاں انسانی بقا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں اور ان کے بڑھتے ہوئے اثرات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں، لہٰذا ترقی یافتہ ممالک کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ صرف ترقی پذیر ممالک ہی اس عفریت کا نشانہ بن رہے ہیں تو ان کے گھر محفوظ رہیں گے۔ ذمہ دار ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے اپنے اقدامات سے رجوع کرنا ہوگا۔ نقصانات کا ازالہ بھی انھی ممالک کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ جیسے اداروں کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک پر زور دینا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے وہ ترقی پذیر ممالک کی بھرپور مدد کریں بصورتِ دیگر ساری دنیا کو ایسے نقصانات اٹھانا ہوں گے جن کی تلافی ممکن نہیں ہو پائے گی۔