• news

غزہ میں انسانی خون کی پھر ارزانی 

اسرائیل نے حماس سے عارضی جنگ بندی کے خاتمہ کے ساتھ ہی غزہ پر دوبارہ وحشیانہ حملے شروع کر دیے جس کے نتیجہ میں بچوں سمیت 175 فلسطینی شہید ہو گئے۔ اس سلسلہ میں فلسطینی وزارتِ صحت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی میں توسیع کی میعاد ختم ہوتے ہی اسرائیلی فضائیہ کے طیاروں نے غزہ کا رخ کیا اور وحشیانہ بمباری کی جس سے درجنوں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمالی علاقے جبالہ میں ایک گھر کو نشانہ بنایا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے حماس پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا اور غزہ پر دوبارہ حملوں کا آغاز کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق شمالی غزہ میں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی جا رہی ہیں۔ غزہ کے مغربی علاقے میں بھی بمباری کی جا رہی ہے جبکہ غزہ پر اسرائیلی جاسوس طیارے نچلی پروازیں کر رہے ہیں اور غزہ کے مختلف علاقوں میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں غزہ پر اسرائیلی طیاروں کی دوبارہ بمباری کی تصدیق کی گئی اور حماس پر الزام لگایا گیا کہ اس نے معاہدے کے مطابق مزید اسرائیلی یرغمالی رہا نہیں کیے اور اسرائیل پر راکٹ بھی فائر کیے ہیں۔
قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں جنگ بندی کے فوری بعد غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور اس امر کی تصدیق کی گئی کہ جنگ بندی معاہدے کی بحالی کے لیے دونوں جانب سے مذاکرات جاری ہیں۔ قطر کی وزارت خارجہ کے بقول قطر اس تمام صورت حال میں ٹھہراو¿ کے لیے کسی بھی عمل میں شریک ہونے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ نے باور کرایا کہ غزہ میں جنگ بندی کے بعد اسرائیلی حملوں کا دوبارہ آغاز تباہ کن ہے اور بحران کی صورتِ حال اب بدترین سطح پر ہے۔ انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں تمام فریقین اور اثر و رسوخ رکھنے والی ریاستوں سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کی بنیاد پر جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی کوششیں دوگنا کریں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی جنگ کے دوبارہ آغاز پر سخت افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ جنگ بندی کی تجدید کے لیے پرامید ہیں۔ یونیسف کی جانب سے بھی غزہ میں پائیدار جنگ بندی کے نفاذ کی اپیل کی گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ کی بحری صورتِ حال کے پیش نظر پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس طغرل کو خلیج عدن میں تعینات کر دیا ہے۔ ترجمان پاک بحریہ کے مطابق پاکستانی تجارتی جہازوں کو کشیدہ صورتِ حال کے پیش نظر درپیش خطرات سے بچانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔ پاک بحریہ سمندر میں کمبائنڈ میری ٹائم فورسز کے تحت بھی کام کرتی ہے اور خطے میں بحری امن و امان قائم رکھنے کے لیے اپنی قومی ذمہ داری سے بخوبی آگاہ ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ پاکستان ممتاز زہرا بلوچ نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں غزہ میں اسرائیلی حملوں پر پاکستان کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں ظلم کی نئی داستان رقم ہو رہی ہے۔ انہوں نے اس امر کا تقاضہ کیا کہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک بند ہونا چاہیے، ہسپتالوں، مساجد اور رہائشی علاقوں پر حملوں کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور غزہ میں امدادی سامان پہنچانے میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں کی جانی چاہیے۔ انہوں نے باور کرایا کہ کشمیر میں بھی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے دو ماہ قبل اکتوبر میں غزہ پر انسانیت ک±ش حملوں کا جواز بھی حماس کے راکٹ حملوں کا ردعمل بنایا گیا حالانکہ حماس نے راکٹ حملے غزہ میں تسلسل کے ساتھ جاری اسرائیلی جنونی فوجی کارروائیوں کے ردعمل میں کیے تھے۔ حماس کے راکٹ حملوں سے پہلے بھی اسرائیلی فوج نے غزہ میں وحشت و بربریت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین پر تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا اور مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ تک میں نمازی مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی تھی۔ اسرائیل کی ریاست تو الحادی قوتوں کی گھناو¿نی سازش اور باہم گٹھ جوڑ کے تحت فلسطین کی سرزمین سے ہی نکالی گئی تھی جس کی پشت پر برطانوی، امریکی استعماری طاقتیں کھڑی تھیں جبکہ فلسطینیوں نے اپنی ہی سرزمین کی آزادی اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے 76 سال قبل جدوجہد کا آغاز کیا جس کے دوران انہوں نے اسرائیلی ریاستی جبر کا ہر ہتھکنڈا برداشت کیا ہے مگر اپنی آزادی کی تڑپ سرد نہیں ہونے دی۔ جارح اسرائیل کے ہر ظلم پر تو انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کو سانپ سونگھا رہتا ہے مگر تنگ آمد بجنگ آمد پر مجبور ہوئے فلسطینیوں کی کسی جوابی کارروائی پر دنیا بھر میں انسانی حقوق کی دہائی دیتے ہوئے طوفان برپا کر دیے جاتے ہیں۔
اسرائیل تو الحادی قوتوں بالخصوص امریکہ کی شہ پر ہی فلسطینیوں کا بے دردی سے قتل عام کرتا اور ان کی اپنی سرزمین ان پر تنگ کرتا ہے مگر یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جاری مظالم پر مسلم دنیا بھی خاموشی اور مصلحتوں کی چادر تانے سوئی رہتی ہے۔ دو روز قبل دبئی میں کوپ 28 کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف رسماً ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی جبکہ فی الحقیقت مسلم دنیا سمیت پوری اقوام عالم اور ان کی قیادتوں نے فلسطینیوں کے اسرائیل کے ہاتھوں گزشتہ دو ماہ سے جاری سفاکانہ قتل عام پر مسلسل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ اس قتل عام کے لیے اسرائیل کو صرف تھپکی ہی نہیں دے رہے بلکہ ان کی جنگی ساز و سامان کے ذریعے سپورٹ بھی کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے ہاتھوں بے دردی سے شہید ہونے والے فلسطینیوں بشمول بچوں اور خواتین کی تعداد بظاہر 14/13 ہزار ہے مگر عملاً ہزاروں فلسطینی اسرائیل کے شوقِ انتقام کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ لاکھوں زخمی اور بے گھر ہوئے ہیں اور غزہ کا عملاً تورا بورا بنایا جا چکا ہے۔ کیا اس پر انسانیت کے ناتے کسی کا دل پسیجا ہے اور مسلم دنیا میں بھی سوائے رسمی مذمتی قراردادوں کے، کیا کسی آنکھ سے حقیقت میں آنسو بہے ہیں۔ آخر مظلوم فلسطینی کب تک بے بسی اور کسمپرسی کا شکار رہیں گے اور مسلم دنیا بھی آخر کب تک مصلحتوں کا شکار رہے گی، یہ صورت حال یقینا تادیر برقرار نہیں رہ سکتی اور فلسطینیوں اور اسی طرح کشمیریوں کے قتلِ عام پر گہرا ہوتا غم و غصہ دنیا کے اتھل پتھل ہونے کی نوبت لا کر رہے گا۔
آج اسی تناظر میں تیسری عالمی جنگ کے امکانات پیدا ہوتے نظر آ رہے۔ آج پاکستان نے اپنا بحری بیڑا خلیج عدن میں تعینات کیا ہے تو کل کو دوسرے مسلم ممالک بھی اسرائیلی جبر و تسلط کے بڑھتے ہاتھ روکنے کے لیے عملی اقدامات پر مجبور ہوں گے۔ اگر اس صورتِ حال میں تیسری عالمی جنگ کی نوبت آتی ہے تو اس کرہ¿ ارض کے ہر خطے میں موجود ایٹمی ہتھیاروں کی بنیاد پر یہ انسانوں کے مابین آخری جنگ ہی ثابت ہو گی جس میں انسانی زندگی سمیت کچھ بھی نہیں بچے گا۔ انسانی حقوق کی نام نہاد چیمپئن عالمی قیادتوں کو اس کا بہرصورت ادراک ہونا چاہیے۔ اس تباہی سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے دیرینہ مسائل فلسطینیوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کر دیے جائیں ورنہ اس روئے زمین پر نخوت و تکبر میں ڈوبے انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہونا ہے، وہ نوشتہ¿ دیوار ہے۔

ای پیپر-دی نیشن