اتوار 18جمادی الاول 1445ھ،3 دسمبر 2023ئ
انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر الیکشن کمیشن کو دھوکہ دیا جا رہا ہے، اکبر ایس بابر
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو غیر قانونی قرار دے کر بقول شخصے نہلا پھینکا، عمران خان نے بقول دیگر شخصے اس پر دہلہ پھینک دیا۔ نگرانوں کا دور ہے عمران خان نے بلے کا نشان بچانے کے لیے خود چیئرمین کے الیکشن میں حصہ لینے سے پسپائی اختیار کر لی اور ’عثمان بزدار ثانی‘کو نگران چیئرمین کے لیے نامزد کر دیا۔ عثمان بزداراول کو بھی خان صاحب اسی طرح گمنامی کی تاریکی سے نکال کر رنگ و نور اور حسن و جمال کی دنیا میں لائے تھے۔ بیرسٹر گوہرخان سیاست کی بہت بڑی اور معروف شخصیت کل تک نہیں تھی آج ان کا اقبال بلند ہو کر دنیا کے سامنے دمک رہا ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشن جس طرح ہمارے ہاں ہوتے ہیں، وہ ایک ہاسا ہے جو ہر پارٹی سے نکلوایا جاتا ہے۔دیکھنے والوں کا ہاسا نکل جاتا ہے۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ جیسے باقی پارٹیوں نے انٹرا پارٹی الیکشن کرائے ہم نے بھی کرا دیے۔
یہ الیکشن کمیشن کو پسند نہیں آئے تو غیر قانونی کا ٹھپہ لگا کر 20 روز میں کرانے کا حکم صادر فرما دیا جو کل ہو چکے ہیں۔ بیرسٹر بلا مقابلہ چیئر مین بن گئے۔اگر باقی پارٹیوں نے ایسے ہی الیکشن کرائے ہیں تو وہ بھی گرفت میں آ سکتی ہیں بشرط کہ وہ بھی تحریک انصاف کی طرح گھور کر، تیوڑیاں چڑھا کر ،مسل دکھا کر بات کریں گی تو۔ اکبر ایس بابر جو تحریک انصاف کا ٹوٹا ہوا تارا ہیں۔جو پی ٹی آئی پر بجلی بن کر گرتے ہیں۔وہ تحریک انصاف کو برے کے گھر تک پہنچانے کے لیے صدق دل سے کوشاں رہے۔ فنڈنگ کیس عمران خان کے پیچھے چھوڑ دیا۔ان کو گلہ ہے کہ ہمیں کاغذات نامزدگی نہیں دیے گئے، گویا چیئرمین صدر یا سیکرٹری کا الیکشن لڑنا تھا۔ ان کے بقول تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر الیکشن کمیشن کو دھوکہ دے رہی ہے۔اکبر ایس بابر سیانے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں بیٹھے لوگ نیانے( بچے)ہیں؟ ان کو کوئی آسانی سے چکمہ دے سکتا ہے؟ پی ٹی آئی کو لٹو کی طرح گھما کر نظر بٹو بنارکھا ہے۔بندہ دو چار چکر گھومے تو اوسان خطا ہو جاتے ہیں لٹو کی طرح چکر کھائے تو کھوپڑی میں کیا باقی رہ جاتا ہے۔ دھوکہ دینے والوں پر توہین عدالت سے بھی کچھ اگلی چیز لگ سکتی ہے۔بابر صاحب شاید ایسا ہی چاہتے ہیں۔ویسے پاکستان میں ایک نئی روایت ضرور پڑی ہے۔ اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے سیکرٹریٹ گئے تو ان کو وہاں پہ نہ صرف کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ان کا استقبال کیا گیا۔
٭٭٭٭٭
دانیال عزیز خود اپنا مذاق اڑوا رہے ہیں، احسن اقبال
دانیال عزیز اور احسن اقبال مسلم لیگ نون کے سرکردہ لیڈروں میں سے ہیں۔ اعلیٰ لیڈرشپ کے ہاں دونوں کے لیے بظاہراحترام پایا جاتا ہے۔ مسلم لیگ نون کابینہ بنائے تو احسن اقبال کے بغیر مکمل نہیں ہوتی،کبھی تو ملٹی یعنی کئی اور من مرضی کی وزارتیں لے لیتے ہیں۔دانیال عزیز نے بھی مسلم لیگ نون میں ایک مقام بنایا ہے۔نواز شریف کی محبت اور مریم نواز شریف کے احترام میں اس حد تک جذباتی ہوئے کہ میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے ججوں کو ایسی سنائیں! ایسی سنائیں!بے نقط سنائیں کہ معاملہ کورٹ میں چلا گیا۔ ان کو دیوانہ تو قرار نہ دیا گیا ،پانچ سال کے لیے نااہل کر دیا گیا۔ قید کی سزا نہیں سنائی گئی۔دیوانہ قرار دیا ہوتا تو فاو¿نٹین ہاو¿س میں داخل کرا دیے گئے ہوتے۔ ان کو بیٹھے بیٹھے نہ جانے کیا سوجھی راہ چلتے خان سے چھیڑ خانی کر دی۔ ان کی طرف سے احسن اقبال کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔یہ بھی کہہ دیا کہ بلدیاتی حکومتوں پر خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔مزید ان پر برسے کہ یہ پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کے چیئرمین تھے مہنگائی پر قابو نہ پا سکے ،جس سے ہماری حکومت ناکام ہو گئی، پارٹی نے نوٹس لیا ہوتا تو ان کو برطرف کر دیا جاتا۔ دانیال عزیز کو غصہ کسی اور بات کا ہوگا جو ایک بیان کو جواز بنا کر نکالا۔ پھر لمبی تان کر سو گئے کہ احسن اقبال دوسرے کان سے نکال دیں گے۔ مگر وہ بھی ترکی بھی ترکی بولے البتہ جواب آں غزل سے گریز کیا۔اینٹ کا جواب اینٹ سے ہی دیابلکہ جو سنا اس سے کم جواب دیا،کیا لاجواب ہوگئے ؟ احسن اقبال مرنجاں مرنج قسم کے پروفیسر ہیں۔ملنگانہ طبیعت پائی ہے۔ملنگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے نہ چھیڑ ملنگاں نوں۔ یہ اس لیے نہیں کہتے کہ ملنگ کو چھیڑنا یا ستانا پاپ ہے بلکہ اس لیے کہتے ہیں کہ چِھڑاہوا ملنگ براپیش آتا ہے۔ چھیڑنے والے پر ایسے ہی یلغار کرتا ہے جیسے چھڑا ہوا بھڑوں کا چھتا۔ ویسے جس طرح دانیال عزیز بولے ایسا کوئی سَتا ہوا ،نک و نک تنگ آیا بندہ ہی بولتا ہے۔
مذاق نہ ایک کا اڑایاجا رہا ہے نہ دوسرے کا بلکہ لیگی قیادت پر سوال اٹھ رہے ہیں: یہ ہے ڈسپلن جو لے کر انتخابات میں جانا ہے۔ احسن اقبال کسی لوٹے کی بات بھی کر رہے ہیں۔اب کیا لوٹا بولے گایا گھومے گا!!!
٭٭٭٭٭
مہنگائی کی لہر کے باوجود پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے، عالمی ادارہ
شکر ہے ہم کہیں تو اچھے کام میں دنیا کے کسی ادارے کو ’جھکانی‘ دے گئے۔ ہمارے نامے میں بڑا نام آ گیا۔ سروے کرنے والے ڈالروں میں تنخواہ لیتے ہیں پاکستان میں روپوں میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔ مغرب میں ایک ڈالر کی کولڈ ڈرنک ملتی ہے، آج کل ڈالر تین سو روپے سے کچھ کم ہے۔ پاکستان میں ایک ڈالر کی پانچ چھ بوتلیں آ جاتی ہیں۔ اسی طرح بریڈ رس بسکٹ پیزا شوارما وغیرہ آتے ہیں۔ جو بھی ہے پاکستان کو ایک اچھائی میں پہلے نمبر پر لایا گیا ورنہ تو ہم دہشت گردی، لاقانونیت ، لڑائی مارکٹائی چوری ، نوسربازی مکرو فریب میں دنیا سے آگے ہوتے ہیں۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ وہ لاہور سے بورے والا جارہے تھے۔ راستے میں بھائی پھیرو سے آگے پتوکی میں نرسریوں کی کہکشائیں ہیں وہاں سے لیموں کے چار پودے خریدے، ان کی آو¿ بھگت کی، پرورش آبیاری کی۔ چند ماہ میں ایک لیموں نمودار ہوا دل بڑا چہکا، چند روز بعد خودبخود لیموں گر گیا۔ شاید پک گیا تھا یا بیمار ہو گیا تو بوٹے نے لات مار کر گرا دیا۔ اسے بڑے اہتمام سےکاٹا گیا۔ یہ صبر کا پھل تھا۔ اس میں سے 32 بیج نکلے۔ اتنے بیج عموماً لیموں سے نہیں نکلتے۔ یہ واقعہ ان صاحب نے بیجوں کا ریکارڈ بنانے کے لیے نہیں سنایا بلکہ اس لیے بتایا کہ نرسری والوں نے سیڈ لیس (بغیر بیج کے)لیموں کہہ کر پودے دئیے تھے اور ان کا ریٹ زیادہ تھا۔ ان دوست سے کہا چیک کر لیں پودا لیموں کا ہے یا امرود کا، کل محلے میں ایک نئی گاڑی، گھر کے سامنے ایسے پڑی دیکھی جیسے مالک نے کوڑے میں پھینک دی ہو۔ اس کے ٹائر نہیں تھے۔
رات کو وارداتیے اتار کر لے گئے۔ نوجوان مالک نے پہلی بار گھر کے باہر گاڑی کھڑی کی، رات بچوں کو دکھا کر ہسپتال سے لیٹ آیا تھا۔ نوسرباز آج کل موبائل اڑاتے ہیں چراتے ہیں اونے پونے بیچ کر دیہاڑی بناتے ہیں۔ بہتر ہے مالک سے رابطہ کریں جو شاید آدھی قیمت پر خرید لے۔
٭٭٭٭٭