نگران وزیراعلیٰ سید محسن نقوی کے نام کھلا خط
مجھے یہ معلوم کرکے بہت دکھ ہوا کہ حکومت پنجاب نے تاریخی اور عہد ساز پنجاب پبلک لائبریری کو اس کی موجودہ عمارت جسے بارہ دری کہا جاتا ہے۔ خالی کرنے اور لائبریری کے ریکارڈ روم کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے اتفاق سے گزشتہ کئی مہینوں میں تقریباً روزانہ ہی پنجاب پبلک لائبریری جانے کا موقع ملتا رہا کیونکہ مجھے1974ءسے 1980ءتک روزنامہ وفاق لاہور کے ریکارڈ کی تلاش تھی۔ 1974 ءمیں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلانے کے لیے جو عظیم تحریک چلی اس میں جناب مصطفی صادق اور اس خاکسار کی زیر ادارت شائع ہونے والے روزنامہ وفاق نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا مگر اس دور کے وفاق کی کوئی کاپی میرے پاس محفوظ نہیں تھی اور نہ ہی مصطفی صادق صاحب کے انتقال پُرملال کے بعد ان کے صاحبزادگان کو اس ریکارڈ کی اہمیت و افادیت کا کوئی خیال آیا اور یہ سب کچھ ضائع ہوگیا، اس ریکارڈ کی تلاش کے لیے میں نے کئی لائبریریوں سے رابطہ کیا مگر میں اس کے حصول میں ناکام رہا۔ پھر ایک دوست کے ذریعے پنجاب پبلک لائبریری کے ریکارڈ روم کے افسروں اور اہلکاروں سے رابطہ ممکن ہوا اور یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ریکارڈ روم میں گزشتہ سو سال کے اخبارات کا ریکارڈ محفوظ ہے اور جب میں نے ریکارڈ روم کے دارالمطالعہ میں روزنامہ وفاق کی فائلوں کا مطالعہ شروع کیا تو میں نے یہ بات نوٹ کی کہ دارالمطالعہ کی تمام کرسیاں پرانے اخبارات سے حوالہ جات تلاش کرنے والوں سے پُر ہوتی تھیں ان میں بڑی تعداد مقابلہ کے امتحان میں حصہ لینے والوں، مختلف موضوعات پر پی ایچ ڈی کرنے والوں اور علم و دانش کے متلاشی اہل فکر و فن کی ہوتی تھی اورریکارڈ روم کے اہلکار ان تمام لوگوں کی مدد کے لیے ہر دم مستعد ہوتے تھے اور اپنے فرائض پورے احساس ذمہ داری سے ادا کرتے تھے تاکہ معلومات کی جستجو کرنے والوں کی تشنگی اور پیاس دور کرسکیں۔ میرے لیے بھی دارالمطالعہ میں وقت گزارنے کا تجربہ بہت خوش گوار اور حوصلہ افزا تھا۔
پنجاب پبلک لائبریری صوبائی دارالحکومت کی قدیم ترین لائبریری ہے جو 1984 ءمیں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کے حکم کے تحت قائم کی گئی اور 1860 ءمیں سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت اس کی رجسٹریشن عمل میں آئی۔ اس لائبریری میں تین لاکھ 75 ہزار سے زیادہ کتابوں کا ذخیرہ محفوظ ہے ۔ اس طرح اخبارات و رسائل کا بھی گزشتہ ایک سو سال کا ریکارڈ اس لائبریری میں پایا جاتا ہے جس میں پیسہ اخبار، پاکستان ٹائمز، سول اینڈ ملٹری گزٹ، احسان، جنگ، نوائے وقت، مشرق اور امروز خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس لائبریری نے بارہ دری وزیر خان میں کام شروع کیا تھا، یہ تاریخی عمارت اس وقت کے گورنر لاہور نواب وزیر خان نے تعمیر کرائی تھی۔ اس عمارت کی تعمیر کا ایک ہی مقصد تھا کہ یہاں ایک پبلک لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس میں لوگوں کے مطالعاتی ذوق کی تسکین کے لیے دارالمطالعہ بھی ہوگا۔ لائبریری کے دوسرے شعبوں کی تعمیر 1939 ءمیں عمل میں آئی اور آڈیٹوریم اور بیت القرآن کے لیے بلاک 1968 ءمیں تعمیر ہوا جس کا افتتاح اس وقت کے گورنر جنرل محمد موسیٰ کے ہاتھوں ہوا۔ اس لائبریری میں ہزاروں کی تعداد میں رسائل و جرائد، پنجاب کے تمام پرانے گزیٹر اور متحدہ پاک و ہند کے 1500 سے زائد مخطوطے بھی اس لائبریری کی قیمتی متاع اور ایک قومی اثاثہ ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد گورنر وزیر خان کی تعمیر کردہ بارہ دری میں سینکڑوں اور ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کی علمی تشنگی دور کرنے اور ان کے تاریخی ورثہ سے استفادہ کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ بلامبالغہ روزانہ بے شمار افراد ان کتابوں، رسائل اور جرائد سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کتب اور اخبارات کا یہ عظیم ذخیرہ طالب علموں کے لیے بہت مدد گار ہے۔ اس کے علاوہ آزادی کی تحریک اورقیام پاکستان کی جدوجہد پر تحقیق کا کام کرنے والے مصنفین اور اہل دانش بھی اپنی تحقیق او کتب نویسی کے لیے اس لائبریری کا رخ کرتے ہیں۔ یہ لائبریری محکمہ تعلیم حکومت پنجاب کے کنٹرول میں ہے۔ حکومت پنجاب اس کا نظم و نسق چلانے کے لیے بورڈ آف گورنمنٹ ایجوکیشنل اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوشنز آرڈیننس 1860 ءکاتقرر کرتی ہے۔ لائبریری کا عملہ پوری تن دہی اور جاں نفشانی سے علم کے پیاسوں کی ضروریات معلوم کرکے ان کو مدد اور رہنمائی مہیا کرتا ہے جو اس چشمہ فیض سے سیراب ہو کر ملک کے مختلف شعبوں میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
یہ اطلاع افسوس ناک ہے کہ اب پنجاب پبلک لائبریری کو بارہ دری کی تاریخی عمارت خالی کرنے کا کہا جارہا ہے اور حکومت ریکارڈ روم( دارالمطالعہ) کو منہدم کردینے کا فیصلہ کر چکی ہے جس سے تاریخی ریکارڈ ادھر ادھر بکھر کر رہ جائے گا اور طالب علم دیکھتے ہی رہ جائیں گے کہ یہ قیمتی سرمایہ کہاں گیا۔ یہ ریکارڈ روم لائبریری آنے والوں کو ریکارڈ کی عکسی نقول اور ڈیجیٹل کاپیاں مہیا کرتا ہے اور لائبریری کی افادہ عام کی اہمیت کی ایک لازمی کڑی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ سید محسن نقوی سے درخواست ہے کہ لائبریری کو تاریخی بارہ دری سے نکالنے اور قیمتی ریکارڈ روم کو منہدم کرنے کے فیصلہ پر از سر نو غور کریں اور یہ فیصلہ جس قدر جلد واپس لے سکیں اتنا ہی بہتر ہوگا اور اگر کچھ عناصر کی ضد برقرار رہی تو محسن نقوی صاحب کے دامن پر اس اقدام کا داغ دھل نہیں سکے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ کالم ان کی نظروں سے گزرا تو وہ اس تاریخی ورثہ کی حفاظت کے لئے آگے بڑھیں گے اور متعلقہ حکام کو اس اقدام سے باز رکھیں گے۔