• news

ملک کو تحریری آئین کے تحت چلانے کا"جھانسہ"

برسوں سے ہمارے ہاں صحافت کی طرح سیاست بھی نہیں ہورہی۔ محض ایک پتلی تماشہ جاری ہے۔ مقصد اس کا دنیا کو یہ جھانسہ دینا ہے کہ پاکستان ’’تحریری آئین‘‘ کے تحت چلایا ایک ’’جمہوری‘‘ ملک ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’اصل ‘‘فیصلے ’’کہیں اور ‘‘ ہوجاتے ہیں۔اس کے باوجود ’’انتخاب‘‘ کے نام سے ایک رسم بھی رچائی جاتی ہے جس کی بدولت ہمارے دل خوش فہم اس گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ فلاں جماعت کے فلاں شخص کو ’’ووٹوں کی اکثریت سے‘‘ وطن عزیز کا وزیر اعظم منتخب کرلیا گیا ہے۔
چند برسوں سے جب بھی ہمارے ہاں وزارت عظمیٰ کے منصب کا ذکر چلے تو ’’مائنس (زید ،بکر یا عمر)‘‘ کی ترکیب بھی گفتگو کا حصہ بن جاتی ہے۔ اکتوبر1999ء میں جب فوجی وردی پہنے ایک اور ’’دیدہ ور‘‘ اقتدار پر قابض ہوا تو اس کے سات نکاتی ایجنڈے سے امید یہ باندھی گئی کہ وہ جمہوری نظام کو گراس روٹس یا بنیادوں سے مضبوط کرے گا۔ مذکورہ مقصد کے حصول کے لئے نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے نام سے ایک ادارہ تشکیل ہوا۔ اس نے اقتدار واختیار کو بلدیاتی اداروں کی بدولت ’’عوام‘‘ تک منتقل کرنے کے منصوبے بنائے۔امید بندھوائی کہ بالآخر بلدیاتی اداروں سے حکمرانی کے آداب وانداز سیکھنے کے بعد بے شمار ’’نئے چہرے‘‘ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کو نظام کہنہ سے نجات دلواکر ’’نیا‘‘ بنادیں گے۔
2002ء میں ہوئے انتخاب کی بدولت مگر اقتدار ’’عطار کے ان ہی لڑکوں‘‘ یعنی ظفر ا للہ جمالی اور پرویز الٰہی وغیرہ کے سپرد کرنا پڑا جن کے خاندان برطانوی استعمارکے دنوں سے ریاست کے دائمی اداروں کے خدمت گزار رہے تھے۔ جمالی مرحوم اگرچہ پرانی وضع کی وجہ سے زیادہ دیر چل نہ پائے اور ’’ہما‘‘ حیلوں بہانوں سے عالمی بینکاری سے پاکستان آئے ’’ٹینکوکریٹ‘‘ شوکت عزیز کے سربٹھادیا گیا۔ بالآخر 2007ء آ گیا۔ جنرل مشرف کے خلاف عدلیہ بحالی کی تحریک چلی۔وہ گھبرا کر آرمی کی کمانڈ جنرل کیانی کے حوالے کرنے کو مجبور ہوگئے۔ یہ کمان ان کے ہاتھ سے نکل گئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ایوان صدر میں براجمان رہنے کے قابل بھی نہ رہے۔
آصف علی زرداری ان کی جگہ صدر ہوئے تو ’’مائنس آل‘‘ کی گفتگو شروع ہوگئی۔ضرورت سے زیادہ متحرک اور ازخود نوٹس کے ذریعے پاکستان کی تقدیر بدلنے کے چیف جسٹس افتخارچودھری بھی شدت سے خواہش مند تھے۔انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے ایک چٹھی نہ لکھنے کی وجہ سے فارغ کیا تو مقتدرکہلاتی قوتوں نے دریافت کیا کہ کسی سیاستدان کو ’’مائنس‘‘ کرنے کے لئے مارشل لاء مسلط کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ہماری عدالتیں ہی ’’انصاف‘‘ فراہم کرتے ہوئے ناپسندیدہ سیاستدانوں کو ’’مائنس‘‘ کرسکتی ہیں۔2017ء  میں ’’گاڈ فادر‘‘ نامی ناول کے مداح آصف سعید کھوسہ نے میری اور آپ کی اجتماعی بصیرت پر حیف بھیجتے ہوئے نواز شریف کو’’سسیلین مافیا‘‘ کا سرغنہ پکارتے ہوئے ’’جھوٹ اور بددیانت‘‘ ٹھہرایا اور وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا۔آصف سعید کھوسہ جیسے میرے اور آپ کے دئے ٹیکسوں سے پالے ’’پاٹے خانوں‘‘ کے بنائے راستے پر چلتے ہوئے ہمیں اب ’’مائنس عمران‘‘ کے مراحل دکھائے جارہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ساتھ اگرچہ 2017ء میں ’’مائنس‘‘ کئے نواز شریف کو ایک بار پھر ’’پلس‘‘بنانے کا سلسلہ بھی عدلیہ ہی کے ہاتھوں زورشور سے جاری ہوچکا ہے۔
بہرحال جو سلسلہ شروع ہوا اس کی پہلی قسط کا انجام ہفتے کے دن ہوگیا۔ الیکشن کمیشن کے حکم پر تحریک انصا ف کو اپنا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ بچانے کے لئے پارٹی انتخاب کی رسم رچانا پڑی۔ عمران خان اس کے دوران ’’دولہا‘‘ بن کر ہاتھوں پر مہندی کا نشان لگوانے ’’پیڑھی‘‘ پر نہیں بیٹھے۔ان کی جگہ بیرسٹر گوہر کو چیئرمین تحریک انصاف کے منصب پر بٹھادیا گیا۔تحریک انصاف کے ’’باقاعدہ‘‘ چیئرمین منتخب ہونے کے باوجود دھیمے مزاج کے ثابت قدم وفادار گوہر صاحب مصر ہیں کہ ان کا عہدہ ’’عارضی‘‘ ہے۔ محض رسمی کارروائی ہے۔وہ کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل فقط عمران خان ہی سے رجوع کریں گے۔ 
اپنے بچپن میں لاہور کے ریجنٹ سینما میں سہراب مودی کی بنائی فلم ’’پکار‘‘ دیکھی تھی۔اس میں ’’عدلِ جہانگیری‘‘ داستان کی صورت بیان ہوا تھا۔ اس فلم میں شہنشاہ جہانگیر جب دربار میں تخت نشین ہوا دکھایا جاتا تو اس کے عقب میں لگائے پردے کے پیچھے اس کی ملکہ نور جہاں کھڑی نظر آتی۔ شہنشاہ کے روبرو جب کوئی دشوار مسئلہ رکھا جاتاتو وہ سرگوشی میں جہانگیر کو اس کا حل بیان کردیتی۔ بیرسٹرگوہر بھی ہفتے کے دن مجھے جہانگیر کی مانند محض تخت پر بٹھائے ہی نظر آئے ہیں۔اہم فرق مگر یہ ہے کہ عمران خان ’’نور جہاں‘‘ نہیں بلکہ تحریک انصاف کو شاہی قوت بنانے والے دلاور ہیں جنہیں اس جماعت کا ظہیر الدین بابر تصور کرنا ہوگا۔
نظر بظاہر بیرسٹر گوہر کے چیئرمین تحریک انصاف منتخب ہونے کے بعد ’’مائنس عمران‘‘ ہوگیا ہے۔میں اگرچہ اس ہیولے کی زد میں آنے کو آمادہ نہیں۔مکدی گل یہ ہے کہ تحریک انصاف کا انتخابی نشان (بلا) فی الوقت بچ گیا۔ یہ کسی ’’دشمن‘‘ کے ہاتھ نہیں لگا۔ 8فروری کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے جو افراد تحریک انصاف کے ٹکٹ کے امیدار ہوں گے انہیں اب بیرسٹر گوہر ہی سے رجوع کرنا ہوگا۔ عمران خان کے وکیل ہونے کی وجہ سے انہیں تحریک انصاف کے بانی تک رسائی کا قانونی حق میسر ہے۔وہ یقینا ان سے طویل مشاورت کے بعد ہی آئندہ انتخاب کے لئے تحریک انصاف کے امیدواروں کی حتمی فہرست کا اعلان کردیں گے جن کا انتخابی نشان بلا ہوگا۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود رہے گا کہ ان دنوں تحریک انصاف کے متحرک وسرکردہ حمایتی ریاست کے مختلف اداروں کے ہاتھوں جن مشکلات کا شکار ہیں ان کے ہوتے ہوئے کتنے افراد تحریک انصاف کی ٹکٹ کے خواہاں ہوں گے۔ بیرسٹرگوہر وکیل ہونے کے ناطے مذکورہ تناظر میں خوش نصیب ہیں۔ ان کے ہمراہ ہفتے کے روز تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل منتخب ہونے والے عمر ایوب خان ابھی تک اپنی جند بچاتے ’’روپوش‘‘ رہنے کو مجبور ہیں۔ پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد جیل میں مقید ہیں اور اسی صوبے کے جنرل سیکرٹری حماد اظہر بھی گرفتاری سے بچنے کے لئے منظر عام پر نہیں آرہے۔

ای پیپر-دی نیشن