• news

  جاوید اختر اور محبتوں کی سفارت کاری  

  عالمی شہرت یافتہ شاعر اور ادیب جاوید اختر کو محبتوں کا سفیر کہا اور سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ وہ اس نظریئے کے پرچارک ہیں کہ فن اور فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کی خوشبو ان کے ملک سے دوسرے ملکوں تک پہنچ  کر شناسائی اور پذیرائی کے مدارج طے کر رہی ہے ۔جاوید اختر آ ج کل لیڈنگ ایج کے روح رواں طارق فیضی کے دوبئی میں سجائے علمی ادبی اور ثقافتی میلے جشن تحبیب میں مہمان خصوصی کی حثیت سے  اپنی محبتوں  کے رنگ بکھیر رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے قومی دن پر سجائے اس میلے کی بازگشت بھی ساری دنیا کی یں سنائی دے رہی ہے کہ پہلی مرتبہ پانچ زبانوں کی ترویج و ترقی کے لئے مختلف محافل کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں دام خیال داستان گوئی اور مضراب کے عنوان سے ادب شاعری موسیقی پینٹنگ اور داستان  گوئی کی روایات کو زندہ کیا گیا ہے۔ پاکستان بھارت امریکہ انگلستان سعودی عرب اور دیگر ممالک کے شاعر ادیب اور فنکار اس بڑے ادبی میلے کے آ سمان ہر ستاروں کی طرح جگمگا  رہے ہیں  شہرت سے دور بھاگنے والے ان ستاروں کی روشنی سے گویا پورے عالم میں بہار آ ئی دکھائی دے رہی ہے قوس و قزح کے پھیلے ان رنگوں میں سب سے زیادہ نمایاں رنگ جاوید اختر کی شاعری کا رنگ ہے کہ جنہوں نے طارق فیضی کے ساتھ مل کر اس میلے کی رونقوں کو چار چاند لگا دئیے ہیں طارق فیضی صاحب کی وساطت سے اس جشن تحبیب کے حوالے سے جاوید اختر  صاحب سے مواصلاتی رابطہ ہوا تو ان سے  گفتگو  کرنا بہت اچھا لگا ان کا کہنا تھا کہ دوبئی کا یہ سارا میلہ تو اپنی  ذات میں ایک  انجمن طارق فیضی  کا سجایا ہے انہوں نے تو انگلی کٹوا کر شہیدوں میں اپنا نام لکھوایا ہے جبکہ حقیقت  یہی ہے کہ جاوید اختر کی شخصیت نے اس فیسٹیول کی رونق کو دوبالا کیا ہے پاکستان اور دیگر ممالک سے نوجوان اور جنیوین شاعروں کی شرکت نے اس ادبی میلے کو اعتبار اور اعتماد بخشا ہے میرے ایک سوال کے جواب میں جاوید اختر کا کہنا تھا کہ پاکستان  اور بھارت کے ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کے  خیر سگالی دوروں میں سیاسی معاملات کو ہس ہشت رکھنا چاہیے  کیونکہ دونوں ممالک کے عوام اور ان کے فنکار ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ مہدی حسن ملکہ ترنم نور جہان اور عالمی شہرت یافتہ فنکار نصرت فتح علی خان کا عوام نے بھرپور استقبال کیا فیض اور فراز کو سر آ نکھوں پر بٹھایا پاکستان سے آ نے والے ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کو ہمارے لوگ سر آ نکھوں پر بٹھاتے ہیں ان کے لئے پلکیں  سجا دیتے ہیں۔ اسی طرح بھارت سے پاکستان آ نے والے ادیبوں شاعروں اور فنکاروں پر  بھی پاکستانی عوام جان چھڑکتی نظر آ تی ہے دونوں ممالک کی حکومتوں کو اس حوالیسے سہو لتیں فراہم کرنا ہوگا۔ تین سے زیادہ ممالک  کے ویزے دینا ہوں گے ان کے دورہ پاکستان کے حوالے  سے بھی ان کے بعض بیانات کو توڑ مڑور کر پیش کیا گیا حالانکہ انہوں  نے ہمیشہ دونوں ممالک اور عوام کے درمیان محبتوں کی سفارت کاری کی ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ کرتے رہیں گے۔  جاوید اختر نے کہا کہ لتا جی کو پاکستان میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ قتیل شفائی اور پروین شاکر نے لتامنگیشکر پر نظمیں لکھیں ان دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبت ہے اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سیاسی لوگوں نے اسے مسئلہ بنایا  ہے بلکہ اہل دانش نے اس  سیاسی  گتھی کو بہت سوچ سمجھ کے الجھایا ہے جاوید اختر صاحب نے راقم کی اس بات کی تائید کی کہ اہل دانش تو  الجھی ہوئی گتھیاں الجھانے کی بجائے سلجھاتے ہیں۔ پچھتر سالہ جاوید اختر کی گفتگو کی طرح  ان کی شاعری کا لب ولہجہ بھی ترو تازہ اور توانا ہے وہ بلاشبہ نفرتوں کی خلیج کو دور کر کے دونوں ممالک کے عوام کو محبت کے ساتھ ایک دوسرے کو قریب لانے کے خواہشمند ہیں ادیب شاعر گیت نگار اسکرین پلے رائٹر علمی ادبی و سیاسی شخصیت جاوید اختر کے والد جان نثار اختر نے بھی فلموں کے یادگار گیت لکھے ان کے دادا مضطر خیرآبادی  بھی بلند پایہ شاعر تھے۔ ان کی شریک حیات شبانہ اعظمی بھی فن کی دنیا کا ایک معتبر  حوالہ ہیں جب کہ ان کے بیٹے فرحان اختر بھی فن کی دنیا میں نمایاں ہیں جاوید اختر اپنے ملک کے پدما شری اور پدما بھوشن  ایوارڈ کے ساتھ اپنے  فلمی گیتوں پر بھی پانچ ایوارڈ لے کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ ان کا یہ گیت  تم کو دیکھا تو یہ خیال  آ یا زندگی دھوپ تم گھنا سایہ تو بہت ہی مقبول  عام ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی ایک نئے رنگ اور ڈھب سے نظر آ تی ہے ان کی غزلیں روایت اور تہزیبی اقدار سے جڑی دکھائی  دیتی ہیں اور چھوٹے مصرعوں سے مزین نظموں میں ان کا فکری اور ذہنی تجسس نمایاں ملتا ہے۔ بھولی بسری باتوں اور  تلخ و شیریں یادوں کی کہکشاں سجانے والا یہ محبتوں کا امین شاعر محبتوں کا سفیر ہے جس کے شعر اور گیت زندگی کے مختلف رنگوں سے آ شنا کراتے ہیں۔ انہیں دیکھنے پڑھنے اور سننے والا بھی اپنی  ذات کی جستجو میں لگ جاتا ہے اور اپنے  من میں ڈوب کر سراغ زندگی پا لینے والے اور ذات کی جستجو سے لے کر آگاہی تک کے سفر کے مسافر اور ان کی راہ گزر عام نہیں بلکہ خاص اور یادگار ہوتی ہے۔ اردو زبان کی ترقی اور شاعری کی خوشبو کو کوبکو شناسائی بنانے والے جاوید اختر بلاشبہ محبتوں کے سفیر کہلانے کے حقدار ہیں              ۔
شب کی دہلیز پر شفق ہے لہو
پھر ہوا قتل آ فتاب کوئی
یہ نیا شہر تو ہے خوب بسایا تم نے
کیوں پرانا ہوا ویران ذرا دیکھ تو لو

ای پیپر-دی نیشن