• news

تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی لیکشن

تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن میں بیرسٹر گوہر بلا مقابلہ چیئرمین پی ٹی آئی بن گئے۔یاسمین راشد کو پنجاب، منیر بلوچ کو بلوچستان، حلیم عادل شیخ کو سندھ اور علی امین گنڈا پور کو خیبر پختون خواہ کا صدر منتخب کیا گیا۔عمر ایوب بلا مقابلہ مرکزی سیکرٹری جنرل چن لیے گئے۔ان انتخابات پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ووٹر تھے ناپریذائیڈنگ افسر تھا۔ دھاندھلا ہوا ہے۔ جب کہ اکبر ایس بابر کہتے ہیں اس الیکشن کو چیلنج کریں گے۔
انٹرا پارٹی الیکشن آئینی تقاضہ ہے جو سیاسی پارٹیوں کو اسی طرح سے بادل نخواستہ پورا کرنا پڑتا ہے جس طرح سے ہررکن پارلیمنٹ کو اپنے اثاثوں کے بارے میں ایک وقفے کے بعد الیکشن کمیشن کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔آئین کی روح کے مطابق خصوصی طور پر انٹرا پارٹی الیکشن سیاسی پارٹیاں نہیں کرواتیں صرف جماعت اسلامی ہے جو آئین اور قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کرتی ہے باقی پارٹیوں کی طرف سے صرف رسم ادا کر دی جاتی ہے۔تحریک انصاف کی طرف سے بھی یہ انتخابات اسی طرح سے کرا دیے گئے جس طرح سے دیگر سیاسی پارٹیاں کرواتی ہیں۔ ان میں  ضابطے کی کارروائی میں کمی رہ گئی تھی تو اس کی نشاندہی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی طرف سے دوبارہ سے انتخابات کروانے کا فیصلہ دیا گیا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے انتخابات کروا دیے گئے۔بڑی بڑی پارٹیوں کو دیکھا جائے تو کون سی پارٹی میں اس طرح سے انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے ہیں کہ صدر کے مقابلے میں کسی نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہوں اور باقاعدہ مقابلہ ہوا ہو۔آئین کی روح کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات نہیں ہوتے تو پھر ایسے انتخابات کا کیا فائدہ اور آئین میں متعلقہ شق کو برقرار رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔عمران خان کا اپنی پارٹی کے انتخابی نشان بلے کو بچانے کے لیے خود پارٹی قیادت سے دستبردار ہونا اچھی حکمت عملی رہی۔ جماعت اسلامی کے سوا ہر سیاسی پارٹی کے انٹر پارٹی الیکشن ایسے ہی ہوتے ہیں۔ دوسری پارٹیوں کو اعتراض کے بجائے اپنے تنظیمی معاملات درست رکھنے چاہئیں۔

ای پیپر-دی نیشن