امیدوار ہوں گے یا نہیں، پارٹی کی باقاعدہ انتخابی مہم ضرور لیڈ کریں گے
وقار عباسی
ملک میں سیاست کا قومی منظر نامہ تبدیل ہورہاہے اور آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کے مؤخر ہونے کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات دم توڑتے نظر آرہے ہیں۔ الیکشن کمشن آف پاکستان کوا ب تک 27 ارب روپے سے زائد رقوم جاری کر دی گئی ہیں،باقی 13 ارب روپے کمشن کی ڈیمانڈ پر کسی بھی وقت جاری کر دیئے جائیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کے خلاف گزشتہ ادوار میں پانامہ پیپرز کی بنیاد پر بنائے گئے نیب ریفرنسز اور ان پر انہیں سنائی گئی سزائیں ایک ایک کرکے عدالتوںسے ختم ہونے پر وہ بری ہورہے ہیں۔ جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں انہیں سنائی گئی سات سال کی سزا کے خلاف کیس رواں ہفتے سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا ہے ،جس پر جلد فیصلہ متوقع ہے۔ میاں نوازشریف آئندہ سال کے عام انتخابات میں حصہ لیں گے یا نہیں یہ ابھی طے نہیں ہوا تاہم وہ اپنے خلاف بنائے گئے مقدمات کے بے بنیاد ہونے کے بیانیہ کو لے آئندہ عام انتخابات میں پارٹی کی انتخابی مہم کو 20دسمبر کے بعدباقاعدہ لیڈ کرنے کی منصوبہ بندی ضرور کررہے ہیں ۔
ادھر پی ٹی آئی کے قائد عمران خان توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہوکر اڈیالہ جیل میں قید ہیں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹر ا پارٹی الیکشن کو خلاف ضابطہ قرار دے کالعدم قر ار دیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے نئے انتخابات کا انعقاد کیا گیا اور بیرسٹر گوہر پاکستان تحریک انصاف کے نئے چیئرمین بن گئے ۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن بھی اب عدالت میں چیلنج کر دیئے گئے ہیں۔اس دوران ایک حقیقت تو واضح ہو گئی ہے کہ پی ٹی آئی میں اب عملی طورپر مائنس ون ہو گیا ہے اور عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نہیں رہے۔ گزشتہ 27سالوں میں پہلی بار ہوا ہے کہ عمران خان پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ سے ہٹادئیے گئے ہیں عمران خان کو پارٹی کی مرکزیت سے ہٹنے کے کیا سیاسی نتائج نکلتے ہیں کیا پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت اہم عہدوں پر وکلاء کی تقرریوں کو قبول کرے گی اس کو لے کر خیبر پختونخواہ کے اندر تو لڑائیاں شروع ہوگئی ہیں اور پارٹی کی سیاسی قیادت وکلا ء کے خلاف نبرد آزما ہوتی نظر آرہی ہے عمران خان کے خلاف قائم مقدمات اور ان کی سزاؤںکی اپیلوں پر ہونے والی عدالتی کاروائی سے یہ تاثر مل رہاہے کہ وہ آئندہ سال 8فروری کے عام انتخابات میں نہ تو حصہ لے سکیں گے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف کے لیے جان دار قسم کی انتخابی مہم کو لیڈ کرپائیں گے پاکستان تحریک انصاف میں پارٹی عہدوں پر وکلاء کی تعیناتیاں کی جارہی ہیں اور پارٹی کے اندر موجود سیاسی قیادت ان تعیناتیوں سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دے رہی ہے اور پی ٹی آئی اس سارے عمل سے صوبوں میں تنظیمی بدنظمی کا شکار ہے جس سے اس کا ووٹر ابہام میں مبتلاہے ۔کیا ایسے حالات میں پی ٹی آئی آئندہ عام انتخابات میں اپنے مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کرسکے گی یہ وہ سوالات ہیں جو ہرعام و خاص کی زبان پر ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی ملک میںعام انتخابات کے حوالے سے اپنی تیاریوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی عام انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم انتخابی اتحاد حلقوں کی سیاست میں ہونے والی سرگرمیوں پر اپنی توجہ مرکوز کررکھی ہے۔بلاول بھٹو کی جانب سے مسلم لیگ کی قیادت پر تابڑ توڑ حملوں کے بعد آصف علی زرداری کی بیان بازی نے سیاسی درجہ حرارت کو نارمل کردیا ہے جماعت اسلامی کی امارت اگلے تین ماہ میں تبدیل ہونے جارہی ہے سنیٹر مشتاق اور حافظ نعیم الرحمان کے حوالے سے آئندہ امیر جماعت بننے کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں جماعت کے اندر سراج الحق کی دیگر سیاسی جماعتوں کیساتھ اتحادی سیاست کے خلاف سخت مزاحمت پائی جارہی ہے اور انہیں جماعت کے اندر اس پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ جماعت اسلامی آئند ہ عام انتخابات میں ہر حلقے سے اپنا امیدوار لانے کی خواہشمند ہے اور کسی بھی حلقے میں دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ الحاق کرنے کے حق میں نہیں ہے ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے جماعت کا حقیقی ووٹ بنک متاثرہوا ہے اور جماعت کو اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ادھر جمعیت علمائے اسلام نے کے پی کے، بلوچستان اور سندھ میں اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں آئندہ ہفتے سے مولانا فضل الرحمان تمام حلقوں کے ٹکٹ ہولڈرز کو بھی حتمی شکل دیں گے اور ان متوقع امیدواروں سے ملاقاتوں کا بھی سلسلہ شروع کرنے جارہے ہیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پی اور بلوچستان پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے موقف کی بھی بھرپور تائید کررہی ہے جو مسقبل میں بننے والی حکومت میں اپنے متوقع شیئر کو ابھی سے سامنے رکھ کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے کے پی میں مسلم لیگ (ن) ہزارہ ڈویژن اور کوہستان میں زیادہ طاقت سے میدان میں اترنے کی تیاریوں میں ہے اور اسے زیادہ امید بھی ہے جبکہ جمعیت قبائلی علاقہ جات اور دیگر ریجن میں اپنی پارٹی پوزیشن کو مضبوط کررہی ہے جماعت اسلامی سوات، بونیر اور دیگر ملحقہ حلقوں میں اور اے این پی بھی اپنی انتخابی سیاست کو مضبوط حلقوں سے جان دار طریقہ سے چلانے کی کوششوں میں مصروف نظر آرہی ہے کے پی میں پاکستان تحریک انصاف کی زیادہ تر پارٹی قیادت یا تو سیاست چھوڑنے کا اعلان یا پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اعلان کرچکی ہے جس کے باعث پی ٹی آئی کا ووٹر قیادت کی جانب سے نئے لوگوں کو آگے لانے اور پارٹی ٹکٹ دینے کا مطالبہ کررہی ہے پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) تحریک استحکام پارٹی اور پی ٹی آئی صف بندی کررہے ہیں۔ جبکہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی، قوم پرست، پاکستان مسلم لیگ فنگشنل سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اپنی حلقوں میں توڑ جوڑ میں مصروف نظر آرہی ہیں بلوچستان میں جمعیت علمائے السلام (ف) کیساتھ مسلم لیگ (ن) کی پارٹی پوزیشن کافی مستحکم نظر آرہی ہے مسلم لیگ میں باپ کی قیادت دوبارہ سے شمولیت اختیا ر کرچکی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ سال 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہے آئندہ ہفتے حلقہ بندیوں کو حتمی شکل دے دی جائے گی اور رواں ماہ کی 20تاریخ تک انتخابی شیڈول کا بھی اعلان متوقع ہے اس سے پہلے پہلے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کو حتمی شکل دینی ہے اور تاکہ امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی سرگرمیوں کو شروع کرسکیں جبکہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت 20دسمبر کے بعد ملک میں اپنے اپنے منشور کو سامنے رکھتے ہوئے انتخابی مہم کا بھی اعلان کرے گی۔ الغرض کہ آئندہ ہفتہ بہت اہم ہے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام شکوک و شبہات ختم ہونگے اور ملک میں پائی جانے والی سیاسی و معاشی بے چینی کی جو لہر گردش کررہی ہے وہ بھی نارمل ہونا شرو ع ہوجائے گی۔ ملک جب ایک نئے انتخابات کے انعقادکی طرف بڑھ رہا ہے اس کے نتیجے میں جو نئی حکومت منتخب ہوگی بلا شبہ وہ ملک کی معاشی، سیاسی اور سفارتی ترجیحات کا تعین کرکے ایک نئے سفر کا آغاز کرے گی۔