شوگر انڈسٹری کئی سالوں سے شدید بحران کا شکار کے باوجود کاروبار کرنے پر مجبور
لاہور(کامرس رپورٹر )پاکستان کی شوگر انڈسٹری گزشتہ کئی سالوں سے شدید بحران کا شکار ہے اور شوگر مینوفیکچررز مسلسل ایسے ماحول میں کاروبار کرنے پر مجبور ہیں جس کی مثال کسی بھی دوسری زرعی صنعت میں نہیں ملتی۔ گنے کی کم از کم قیمت صوبائی حکومتیں مقرر کرتی ہے جبکہ شوگر ملوں کو سستے نرخوں پر چینی فروخت کرنے کیلئے دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔ دوسری طرف شوگر ملیں چینی کو مارکیٹ فورسز کی طرف سے تعین کردہ ایکس مل ریٹ اور اس کی پیداواری لاگت سے کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہوتی ہیں تاکہ کاشتکاروں کو بروقت ادائیگیوں کو یقینی بنایا جا سکے اور اپنی ورکنگ کیپیٹل کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔چینی کی حالیہ قیمتیں گزشتہ سیزن کے کیری اوور سٹاک سے منفی طور پر متاثر ہوئی ہیں جس کی وجہ ایک ارب ڈالر مالیت کی 10 لاکھ ٹن سرپلس چینی میں سے کم مقدار کی برآمدات اور چینی کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر عائد غیر قانونی پابندیاں ہیں۔ اضافی چینی کے ذخائرکی برآمد یا خریداری بذریعہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان برائے سٹریٹجک ریزرو کی بابت شوگر انڈسٹری کی بارہا۔ درخواستوں کے باوجود تاحال حکومتی تعاون حاصل نہیں ہوا ہے۔گنا چینی کی پیداوار کا ایک اہم خام مال اور لاگت کا جزو (تقریباً 80%)ہے۔کرشنگ سیزن 24-2023 کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ گنے کی کم از کم امدادی قیمت میں پنجاب میں 33 فیصد اور سندھ میں 41 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ شوگر ملز پہلے ہی بینکوں کے قرضوں میں کمی اور پچھلے دو سالوں میں مارک اپ ریٹس ، اجرتوں، درآمدی کیمیکلز ، نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ کی وجہ سے لیکویڈیٹی بحران کا سامنا کر رہی ہیں۔ ان عوامل کی وجہ سے چینی کی پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے جبکہ اس وقت چینی کی ایکس مل قیمت اس کی پیداواری لاگت سے بہت نیچے چلی گئی ہے۔موجودہ کرشنگ سیزن میں چینی کی پیداوار اور اس کی پیداواری لاگت سے کم پر فروخت کرنا اور بھاری نقصان اٹھا کر لمبے عرصے تک چلنا شوگر ملوں کیلئے ناممکن ہو تا جا رہا ہے۔