ایک حکایت
علامہ اقبال اپنی عمر بھر کی مساعی حضر ت محمد ﷺ کے حضور اس طرح بیان کرتے ہیں:
حضور ِ ملت بیضا تپید م
نوائے دل نوازے آفریدم
ادب گوئید سخن را مختصر گوئے
تپیدم ، آفریدم ، آرمیدم
( ترجمہ) ’’ میں ملت ِ بیضا کے حضور تڑ پتا رہا اور میں نے ایک دل گداز نغمہ اور صدا تخلیق کی۔ ادب کا تقاضا ہے کہ بات مختصر کی جائے۔ تویوں کہیے کہ میں تڑپا ، میں نے تخلیق کیا اور میں چل بسا۔‘‘
علامہ اقبال ایک بلند پایہ عالم ، مفکر،محقق اور دانشور تھے۔ وہ حکیم الامت تھے۔ انہوں نے ملت اسلامیہ کی صدیوں کی غلامی اور پستئی و انحطاط پر برسوں غور و فکر کیا۔ اقوام عالم کے افکار کا بغور مطالعہ کیا۔ قوم کا مرض معلوم کیا ، مرض کی وجوہات کی نشاندہی کی اور قوم کو اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کیلئے ’’مثنوی اسرار و رموز‘‘ کی شکل میں ایک لائحہ عمل دیا۔ زندگی کا ایک اہم سبق اس مثنوی کی اس حکا یت سے ہمیں ملتا ہے۔
مرو شہر (ترکستان) کا ایک نوجوان ، جو سرو کی مانند بلند قامت تھا، سید علی مخدو م ہجویری کی خدمت میں لاہور حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے: ’’اے بلندی میں آسمان کا رتبہ رکھنے والے سید! میں دشمنوں کی صفوں میں اس طرح گھرا ہوں ، جس طرح پتھروں کے درمیان مینا(شیشے کی صراحی)۔ مجھے دشمنوں کے درمیان زندگی بسر کرنے کا طریقہ سیکھایئے۔‘‘ ِِ مرض کی تشخیص کی، وجوہات معلوم کیں اور علاج تجویز کیا۔ مثنوی اسرار ورموز اس صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے قوم کیلئے ایک لائحہ عمل ہے۔ یہ اس مثنوی کی ایک حکایت ہے۔ اس میں خطروں میں گھری ہوئی قوم کیلئے ایک اہم سبق ہے۔ ترکستان کا ایک نوجوان ، جو سرو کی مانند بلند قامت تھا ، لاہور آیا اور سید علی مخدوم ہجویری کی خدمت میں حا ضر ہوا۔ تاکہ اْن کا آفتاب اْس کے دل کی تاریکی دور کر دے۔ کہنے لگا ، میں دشمنوں کی صفوں میں گھرا ہوا ہوں ، میری مثال وہی ہے ، جو پتھروں کے درمیان مینا (شیشے کی صراحی) کی۔ اے بلندی میں آسمان کا رتبہ رکھنے والے سید?! مجھے دشمنوں کے درمیان زندگی بسر کرنے کا طریقہ سکھا۔ یہ ا قبا ل ? فرماتے ہیں : ( ترجمہ شعر ۵۴۸ ) ’’ میں،سید علی ہجویری? کے کما ل کی ایک داستان بیان کرتا ہوں۔ میری یہ کوشش غنچہ کے اندر پورا باغ سمیٹنے کے مترادف ہے‘‘۔ مزید فرماتے ہیں : ( ترجمہ شعر ’’ ۵۷۱) میں حکایتوں کے ذریعہ زندگی کے راز کی وضاحت کرتا ہوں اور اپنے کلام کے زور سے دوسروں کا غنچہ دل کھلاتا ہوں۔‘‘
سید علی ہجویری جو قوموں کے مخدوم ہیں۔ جن کا مرقد خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کیلئے حرم کی مانند ہے۔ اْنکی روحانیت سے یہاں دین حق کا بول بالا ہوا۔ پنجاب کی سرزمین اْن کے دم قدم سے زندہ ہوگئی۔ وہ خود عشق سے سرشار تھے اور عشق کے تیز رفتار پیامبر بھی۔ اْنکی روشن پیشانی سے عشق کے بھید آشکار ہوئے۔ آپ اس نوجوان سے فرما تے ہیں: (ترجمہ اشعار # 554 سے 559 تک، 561 سے 563 تک، 565 ) ’’اے راز حیات سے ناواقف نوجوان ! تو زندگی کے انجام اور آغازسے واقف نہیں ہے۔ دشمنوں کا خوف اپنے دل سے نکال دے، تیرے اند ر ایک خوابیدہ قوت موجود ہے، اْسے بیدار کر۔جب پتھر اپنے آپ کو شیشہ سمجھنے لگتا ہے، تو وہ شیشہ ہی بن جاتا ہے ، اور شیشہ کی طرح ٹوٹنے لگتا ہے۔ جب مسافر اپنے آپ کو کمزور سمجھتا ہے ، توہ وہ اپنی جان بھی نقدی کی طرح راہزن کے سپرد کر دیتا ہے۔ اپنے آپ کو کب تک پانی اور مٹی (کا پتلا) سمجھتا رہے گا ، اپنے اندر شعلہ طور پید اکر۔ دشمنوں کی شکایت کرنے کا کیا فائدہ۔جو کوئی خودی کے درجات سے واقف ہے، اگر اْس کا دشمن قوی ہے ، تو وہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتا ہے۔ دشمن انسان کی کھیتی کیلئے بارش کی مثل ہے،کیوں کہ وہ اس کے اندر خفیہ امکامات کو نیند سے بیدار کرتا ہے۔ اگر انسان باہمت ہو تو راستے کی رکاوٹ پانی کی مانند بہہ جاتی ہے۔ جیسے سیلاب کے سامنے پستی اور بلندی کی کوئی اہمیت نہیں۔ حیوان کی طرح کھانا اور آرام کرنا ،کیا معنی ؟ اگر تواپنے اندر پختہ نہیں،تو زندگی کا کیا فائدہ۔‘‘
گر فنا خواہی ز خود آزاد شو
گر بقا خواہی بخود آباد شو
(تر جمہ ) ’’اگر تجھے مٹ جانا پسند ہے تو اپنی خودی سے بے تعلق ہو جا۔اور اگر زندگی چاہتا ہے تو اپنی خودی کی تعمیر کر‘‘۔
از خودی اندیش و مردِ کار شو
مرد حق شو حاملِ اسرار شو
(ترجمہ ) ’’خودی سے آگاہ ہو کر باہمت بن جا۔مردِ حق اور حامل ِ اسرار ہو جا‘‘۔
یہ نصیحت حیران کن نتائج کی حامل ہے۔ تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ موجودہ دور میں ، افغان قوم نے سید علی ہجویری کی اس نصیحت کی صداقت کی گواہی، اپنی پچاس سالہ جنگ آ زادی میں ، بھرپور طریقہ سے دی ہے۔ دنیا کے غریب ترین ملک کے ان پڑ ھ ، غیر تر بیت یا فتہ قبائل نے جنگی وسائل نا ہوتے ہوئے بھی دنیا کے امیر ترین ممالک کی جدید اسلحہ سے لیس ، ناقابل شکست سمجھی جانے والی، طاقتور افواج کو یکے بعد دیگرے شکست دی ہے۔ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا، اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مستقبل میں بھی لکھا جاتا رہے گا، لیکن ایک بات طے ہے کہ اس تمام جد و جہد میں افغان قو م کے دل میں دشمن کا خو ف موجود نہیں تھا۔ افغان قبائلی لشکروں نے پہلے سوویت یونین کی آرمی کو دس سال کی جنگ کے بعد تاریخی شکست دی۔ بروس را ئیڈل کے مطابق یہ شکست گلوبل گیم چینجر ثابت ہوئی۔
Steve Coll اپنی کتاب ’’GHOST WARS‘‘ میں لکھتا ہے:
"During the 1980's, Soviet conscripts besieged by CIA-supplied Afghan rebels called them "dukhi'' or ghosts. The Soviets could never grasp and hold their enemy. It remained that way in Afghanistan long after they had gone. From its first days before the Soviet invasion until its last hours in the late summer of 2001, this was a struggle among ghosts.''
امریکہ نے اپنی تاریخ کی سب سے لمبی جنگ افغانستان میں لڑی،آ ٹھ لاکھ فوج استعمال کی، دو ٹریلین ڈالر خرچ کیے، بیس سال جنگ کے بعد بقول امریکہ کے صدر،
"After 20 years --- a trillion dollars spent training and equipping hundreds of thousands of Afghan National Security and Defence Forces, 2448 Americans killed, 20,722 more wounded, and untold thousands coming home with unseen trauma to their mental health -- I will not send another generation of Americans to war in Afghanistan with no reasonable expectation of achieving a different outcome.''When asked: ''Is a Taliban takeover of Afghanistan now inevitable?'' American President said: ''No, it is not. Because you --- the Afghan troops have 300,000 well-equipped -- as well equipped as any army in the world -- and an airforce
……………………(جاری)