تحریک پاکستان کا سپاہی۔حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی
ہماری حیات ملی میں کئی ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے شب وروز فرنگی حکمرانوں سے نجات، آزاد وطن کے قیام اور پھر مملکت اسلامی کی تعمیر واستحکام کیلئے وقف کئے رکھے۔ یہ وہ خوش قسمت افراد تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں فرنگی حکمرانوں کو رخصت ہوتے اور آزادی کا سورج چڑھتے دیکھا۔پھر آزاد فضائوں میں سانس لیا۔ ایسے افراد کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو ان میں ایک نمایاں نام حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ کا ہے جنہوں نے اپنے عزم وعمل ، خلوص و محبت، علم وفضل ، شعر و شاعری، ملی و طبی اور سماجی بہبود کے میدانوں میں لافانی نقوش چھوڑے اور تاریخ کے صفحات پر زندہ جاوید ہوگئے۔
حکیم عنایت اللہ نسیم نیتاریخی اور مردم خیز سرزمین سوہدرہ میں 1911ء میں ایک دیندار گھرانے میں جنم لیا۔ابتدائی تعلیم سوہدرہ سے حاصل کی،پھر مشن ہائی سکول وزیرآباد میٹرک کیا۔ اس دوران ان کا تعلق مولانا ظفر علی خان سے قائم ہوا۔ مولانا کا گائوں کرم آباد سوہدرہ اور وزیرآباد کے درمیان تھا۔سکول آتے جاتے مولانا کی کرم آباد موجودگی پر ان سے استفادہ کرتے، ان کے درمیان تعلق قرب زمانی ومکانی کے ساتھ ساتھ ذہنی ہم آہنگی ونظریات کی وجہ سے بڑھتا گیا۔ پھر مولانا کے ایما پر مزید تعلیم کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طبیہ کالج چلے گئے جو ان دنوں ملی سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمانان برصغیر کا مرکز تھا۔ حکیم صاحب جو مولانا ظفر علی خان سے فکری طور پر متاثر تھے، ان سرگرمیوں کا حصہ بن گئے اور علی گڑھ میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے اور ان طلبہ میں شامل تھے جنہوں نے قائد اعظم کی علی گڑھ آمد پر ان کی بگھی کو کندھوں پر اٹھا یا تھا۔وہ علی گڑھ میں ختم نبوت کی تحریک میں پیش پیش رہے اور اس دوران علامہ اقبال سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔تحریک پاکستان میں ابوسعید انور اور دیگر رہنماوں کے ہمراہ دورے کئے، انہیں طلبہ وفود میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں دہلی ، پٹنہ اور 23 مارچ 1940 لاہور کے تاریخی اجلاس میں شریک ہونے کا موقع ملا اور پھر اپنی زندگی میں غلامی کی سیاہ رات کو ختم ہوتے اور فرنگی حکمرانوں کو رخصت ہوتے دیکھا۔اس کے بعد نوزائیدہ مملکت اسلامی کی تعمیر کیلئے سربکف ہوگئے۔ تحریک ختم نبوت 1953 میں گرفتار ہوئے تحریک جمہوریت میں کام کیا، تحریک نظام مصطفی میں حصہ لیا۔ اللہ نے انہیں تحریروتقریر کی خوبیوں سے نوازا تھا، اخبارات میں کالم لکھتے، سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے۔ رسول کائنات،قائد اعظم کی شخصیت و حیات اور طب وصحت پر کتب لکھیں۔’’ مولانا ظفر علی خان اور ان کا عہد‘‘ ان کی شہرہ ا?فاق تصنیف ہے۔ حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی ہرسال مولانا ظفر علی خان کی برسی پر تقریبات کرتے، نیا مضمون لکھتے، مولانا کے بعد ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے میں سب سے زیادہ کردار ان کا ہے۔ مجیب الرحمن شامی نے خوب لکھا ہے کہ:
’’حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی کو اپنے لڑکن پن اور جوانی میں ان کی خدمت میں حاضری اور استفادہ کا جو موقع ملتا رہا ہے وہ کم ہی لوگوں کے حصیمیں ا?یا ہوگا۔سوہدرہ کرم آباد سے چند قدم کے فاصلہ پر ہے۔ حکیم عنایت اللہ نے اس ہمسائیگی کا خوب فائدہ اٹھایا، مولانا کی صحبت سے جوکچھ حاصل کیا اس میں محبان ظفر کو یوں شریک کیا کہ’’ مولانا ظفر علی خان اور ان کا عہد‘‘ قلم بند کر ڈالا۔جوپاکستان کی تاریخ ، سیاست اور صحافت کے طالب علموں کے لئے تحفہ خاص ہے‘‘
راقم ان افراد میں شامل ہے جنہیں حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہے۔ انہیں قریب سے دیکھنے، ان کی باتیں سننے اور جاننے کے مواقع ملے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر جہلم تھا اور مولانا ظفر علی خان پر پی ایچ ڈی کررہاتھا۔ میں ان سے ملنے ان کی اقامت گاہ سوہدرہ جاتا اور راہنمائی لیتا تھا۔ ان سے پہروں نشست ہوتی۔ میں نے دیکھا کہ وہ انتہائی منکسر المزاج ، دھیمے لہجے والے اور ذاتی زندگی میں مسلمان تھے۔ انکے سراپا میں بہت دلا?ویزی اور گھلاوٹ تھی، لمبا قد ، مشرقی وضع وقطع ، سفید رنگ اور سفید ریش مبارک، سر پر جناح کیپ، شلوار قمیض پر علی گڑھ کٹ شیروانی، ہاتھ میں چھڑی ،جیب میں گھڑی ،لب ولہجہ میں متانت ، دل ودماغ سوچوں میں گم ،گفتار مثل آبشار اور گرم دم جستجو ،نرم دم گفتگو کی تصویر تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ راہ حق کے مسافر تھے اور زندگی کا مقصد خدمت خلق رہا۔ شعائر اسلامی کا بہت احترام کرتے اور مولانا ظفر علی خان کی طرح جس کام میں حصہ لیتے اس کا مقصد اسلام کی سربلندی اور ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ رہا۔ اللہ نے انہیں بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت طبیب ، ادیب ، صحافی ، مصنف اور شاعر بھی تھے مگر نام ونمود سے دور رہتے تھے۔ کبھی کلام شائع نہیں کرایا، ان کی شاعری ہجرووصال کی بجائے ملی جذبات کی آئینہ دار تھی۔ ان کا معروف شعر ہے:
بس کہ نسبت ہے محمد سے غلامانہ مجھے
میری درویشی بھی رشک شوکت شاہانہ ہے
اپنے علاقے میں رفاہی سرگرمیوں کے لئے ایک ٹرسٹ اور رفاہی تنظیم بنائی۔ مقام مسرت ہے کہ ان کے فرزندارجمند حکیم راحت نسیم سوہدروی آج اس کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ مجلس کارکنان تحریک پاکستان کے سرکردہ ارکان میں سے تھے۔ انجمن حمایت الاسلام کی جنرل کونسل کے ممبر بھی تھے۔ سوہدرہ سے کونسلر بھی منتخب ہوتے رہے۔ انہیں حکومت کی جانب سے تحریک پاکستان گولڈ میڈل بھی ملا تھا۔ نیشنل کونسل فار طب کے کوئی پندرہ سال تک ممبر رہے۔کنٹرولر امتحانات اور چیئرمین امتحانات بھی رہے۔ ان سب مصروفیات کے باوجود باقاعدگی سے مطب بھی کرتے اور حکماء کیلئے ملک بھر کے دورے کرتے۔ وہ بلند فکر طبیب تھے اور طب کی دنیا کی عظیم شخصیت حکیم محمد سعید شہید کے قریبی رفقا میں سے تھے۔ آپ 9 دسمبر1994ء جمعہ کی شام چند روزہ علالت کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ حافظ احمد شاکر ابن عطاللہ خنیف نے نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں انکے آباواجداد کے پہلو میں سوہدرہ میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپردخاک کردیا گیا۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
٭…٭…٭