آل انڈیا مسلم لیگ کا منشور 1936
برطانیہ نے گول میز کانفرنسوں میں مشاورت کے بعد ہندوستان پر 1935 کا ایکٹ نافذ کردیا - آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں بڑی جماعتوں نے اس ایکٹ کی مخالفت کی- آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک قرارداد منظور کرکے 1935 کے ایکٹ کو ہندوستان کے عوام کی فلاح و بہبود مزاج اور ترقی کے خلاف قرار دیا - البتہ دونوں بڑی جماعتوں نے اس ایکٹ کی وفاقی سکیم سے سخت اختلاف کیا اور صوبائی سکیم سے کافی حد تک اتفاق کیا- آل انڈیا مسلم لیگ نے قائد اعظم کو 33 اراکین پر مشتمل مرکزی پارلیمنٹری بورڈ تشکیل دینے کا اختیار دیا- مرکزی بورڈ کی نگرانی میں انتخابات کے لیے صوبائی پارلیمنٹری بورڈ تشکیل دیے گئے تاکہ پارٹی کے صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کو نامزد کر سکیں- مرکزی بورڈ نے صوبائی تنظیموں کو ہدایت کی کہ وہ 1935 کے ایکٹ کو تسلیم نہ کریں- البتہ صوبوں کی سطح پر اس ایکٹ کو عوام کی فلاح وبہبود اور مسلم لیگ کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کریں- صوبائی تنظیمیں جماعت کے مفاد میں دوسرے سیاسی گروہوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہیں- آل انڈیا مسلم لیگ کو پارٹی دستور کے مطابق چلایا گیا- ہر سال آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس بلا کر تنظیمی اور سیاسی فیصلے کیے جاتے اور قراردادیں منظور کی جاتیں - جو لوگ 1906 سے 1947 تک آل انڈیا مسلم لیگ کی قراردادوں کے مطالعہ میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ شریف الدین پیر زادہ کی تاریخی کتاب "فاؤنڈیشنز آف پاکستان" کا مطالعہ کر سکتے ہیں- مرکزی پارلیمنٹری بورڈ نے قائد اعظم کی سربراہی میں1937 کے انتخابات کے لیے منشور جاری کیا- " مسلمانوں کے مذہبی حقوق کا دفاع کیا جائے گا- ایسے تمام امور جو خالصتاً مذہبی نوعیت کے ہوں گے ان کے سلسلے میں جمیعت علمائے ہند اور مجددین کی جانب رجوع کیا جائے گا اور ان کی رائے کو اہمیت دی جائے گی- تمام جابرانہ قوانین کو منسوخ کرانے کی پوری کوشش کی جائے گی- ان تمام اقدامات کو مسترد کر دیا جائے گا جو ہندوستان کے لیے نقصان دہ ہوں گے- جن سے عوام کی آزادیاں سلب ہوتی ہوں گی اور جن سے عوام کا معاشی استحصال ہوتا ہو- وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتی اخراجات کم کیے جائیں گے- ایسے شعبوں کے لیے زیادہ فنڈز رکھے جائیں گے جس سے ریاست اور عوام مضبوط ہو سکتے ہوں- فوج کو قومی بنایا جائے گا اور فوج کے اخراجات کم کیے جائیں گے- گھریلو صنعتوں سمیت ہر قسم کی صنعت کی حوصلہ افزائی کی جائے گی- ملک کی معاشی ترقی کے لیے کرنسی اور قیمتوں کو ریگولیٹ کیا جائے گا- دیہات کی معاشی سماجی اور تعلیمی ترقی کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے- زرعی قرضوں میں ریلیف دیا جائے گا- پرائمری تعلیم کو لازمی اور فری بنایا جائے گا- اْردو زبان اور رسم الخط کو فروغ دیا جائے گا- مسلمانوں کے حالات میں بہتری لانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے- عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ کو کم کیا جائے گا- سارے ملک میں صحت مند روایات کو فروغ دیا جائے گا اور سیاسی شعور کو بلند کیا جائے گا-"
آل انڈیا مسلم لیگ کے اس مختصر مگر جامع منشور تحریک پاکستان کی روح قرار دیا جا سکتا ہے- یہ منشور سیاسی لیڈروں اور پاکستان کے عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ 87 سال بعد ہم اجتماعی طور پر کہاں کھڑے ہیں- پاکستان کے جو لیڈر مسلم لیگ کے نام پر سیاست کر رہے ہیں وہ 1936 کا منشور پڑھ کر اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنی کار کردگی کا جائزہ لیں- وی آئی پی کلچر کی وجہ سے ہمارے حکومتی اخراجات ورلڈ ریکارڈ قائم کر رہے ہیں- تعلیم کے میدان میں ہم دنیا کے مقابلے میں آج بھی بہت پیچھے ہیں- ہماری زراعت اور صنعت کی شرح شرمناک ہے- ہم خود احتسابی کرکے ہی موجودہ سنگین بحران سے باہر نکل سکتے ہیں - علمائے ہند نے 1937 کے انتخابات میں مسلم لیگ سے تعاون کیا مگر 1946 کے انتخابات جو پاکستان کے قیام کے لیے لڑے گئے علمائے ہند کے مزہبی رہنما مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے رفقاء نے مسلم لیگ کو چھوڑ کر آل انڈیا کانگریس سے الحاق کر لیا-1937 کے انتخابات میں کانگریس نے 5 صوبوں میں اکثریت حاصل کرکے اپنی حکومتیں تشکیل دے لیں اور مسلمانوں کو نمائندگی دینے سے انکار کردیا -کانگریس نے ممبئی اور صوبہ سرحد میں بھی حکومتیں قائم کر لیں- صوبوں میں کانگریس کی حکومتوں کے بعد متعصب ہندو ذہن کھل کر سامنے آگیا -کانگریس نے مسلمان دشمنی پر مبنی گیت بندے ماترم کو قومی ترانہ بنا لیا جو سکولوں اور سرکاری تقریبات میں پڑھا جاتا قائد اعظم نے اس کی مذمت کی- مہاتما گاندھی کو قومی ہیرو ڈیکلیئر کیا گیا - مسلمانوں کا استحصال کرنے اور ان کو بے آبرو کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گئے - کانگریس لیڈروں کے معاندانہ اور متعصبانہ رویے کے بعد مسلم لیگ کے لیڈر اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے الگ ریاست کا قیام انتہائی ضروری ہے-1937 کے انتخابات کے بعد مسلمان الگ ریاست کے لیے یکسو ہوگئے اور 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ لاہور کے تاریخی اجلاس میں مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کی قرارداد منظور کر لی جسے پہلے قرار داد لاہور اور بعد میں قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا - کانگریس کے لیڈروں نے کہا کہ پاکستان ایک ناممکن خواب ہے- قائد اعظم نے یقین محکم کے ساتھ جواب دیا کہ ناممکن کا لفظ ان کی ڈکشنری میں نہیں ہے- آل انڈیا مسلم لیگ جمہوری اصولوں کے مطابق اپنے سالانہ اجلاس میں قائد اعظم کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرتی تھی- پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو قائد اعظم کی جمہوری ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے اپنی جماعتوں کو جمہوری اصولوں کے مطابق چلانا چایئے تاکہ پاکستان میں جمہوری کلچر پروان چڑھ سکے اور سیاسی جماعتیں مضبوط اور مستحکم ہو سکیں اور کوئی غیر سیاسی ریاستی ادارہ ان کو زچ نہ کر سکے-
٭…٭…٭