• news

میاں صاحب آگے بڑھیں!!!!!

چند روز قبل عمران خان اور فضل الرحمٰن کے حوالے سے لکھا تھا کہ ان دونوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ماضی میں پھنسے رہتے ہیں۔ دونوں آگے بڑھنے کے بجائے ماضی کے واقعات کو بنیاد بنا کر گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی عوام کو ماضی میں الجھائے رکھتے ہیں اور ان واقعات کی وجہ سے عام لوگوں میں نفرت بڑھتی رہتی ہے، لوگ مستقبل کا سوچنے کے بجائے ماضی کے تجربات اور واقعات پر بحث کرتے ہوئے وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ ہم انیس سو ساٹھ کے واقعات کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں، اسی طرح ہم انیس سو ستر، انیس سو اسی، انیس سو نوے، دو ہزار کی دہائی یا اس کے بعد پیش آنے واقعات کو بنیاد بناتے ہیں اور گھنٹوں تقریریں کرتے رہتے ہیں۔ اس بحث میں کوئی تعمیری پہلو کہیں نظر نہیں آتا لیکن ہم ہر وقت ایسے معاملات الجھے رہتے ہیں۔ جب سیاسی قیادت کا رویہ ایسا ہو گا تو پھر عام آدمی بھی اسے راستے پر چلے گا۔ ہماری ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ بدلے کا جذبہ ہے، ہم درگزر سے کام لینے کے بجائے بدلہ لینے اور کسی کو نیچا دکھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ہم کسی گرے ہوئے شخص کو اٹھانے کے بجائے اس کو مزید دبانے اور دفن کرنے میں زیادہ مہارت رکھتے کیں اور سازشوں کو فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت آج بھی ماضی میں الجھی ہوئی ہے اس میں تازہ اضافہ میاں نواز شریف ہیں، میاں صاحب بھی ہر وقت ایسے معاملات میں الجھنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں سے تعمیر کا کوئی پہلو نہیں نکلتا البتہ تکلیف اور رکاوٹیں ضرور پیدا ہوتی ہیں۔ 
میاں نواز شریف کہتے ہیں "مجھے پتا لگنا چاہیے کہ 93ء اور 99ء میں مجھے کیوں نکالا گیا، ہم نے کہا کہ کارگل لڑائی نہیں ہونی چاہیے تھی کیا اس لیے نکالا گیا، وقت ثابت کررہا ہے کہ ہم صحیح تھے وہ فیصلہ بھی ہمارا صحیح تھا، ملک کی بات آتی ہے تو ہم پیچھے نہیں ہٹتے، ہم نے ایٹمی دھماکے کیے اور پاکستان مضبوط ہو گیا، آج کسی کی جرات نہیں کہ پاکستان پر چڑھ دوڑے یا میلی آنکھ سے دیکھے، ہم نے معاشی، دفاع اور خارجہ ہر فرنٹ پر کارکردگی دکھائی، ہمارے دور میں بھارت کے دو وزیراعظم مودی اور واجپائی پاکستان آئے، اب ہمیں اپنے معاملات بھارت، افغانستان، ایران اور چین کے ساتھ بھی مزید بہتر کرنے ہیں۔"
میاں صاحب تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی بن سکتے ہیں تو کیا وہ بھی ماضی میں ہی الجھے رہنا چاہتے ہیں۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو ایسے معاملات میں ہو سکتی ہیں لیکن کیا یہ درست وقت ہے، کیا ہم اپنے لوگوں کو ماضی کے واقعات میں الجھا کر ملک کو ترقی کی طرف لے کر جا سکتے ہیں، ہم کیوں آگے بڑھنے کی بات نہیں کرتے، ہم کیوں اپنے منشور پر بات نہیں کرتے، ہم کیوں نفرت کی بنیاد پر یا مظلوم بن کر ووٹرز کو قائل کرنا چاہتے ہیں، اگر میاں صاحب ایسی باتیں کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ لوگ انہیں کہنا شروع کر دیں کہ آپ صرف یہ کیوں پوچھتے ہیں کہ آپکو کیوں نکالا، اگر آپ یہ پوچھتے ہیں کہ آپ کو کیوں نکالا تو پھر یہ بھی بتائیں کہ آپ کیسے آئے یا آپ کو لایا کون، پھر اور باتیں شروع ہوں گی، پھر بات کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔ اگر یہ باتیں ہوتی ہیں تو کیا میاں صاحب کو اچھا لگے گا، یقینا انہیں اچھا نہیں لگے گا۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ اگر وہ قوم کی رہنمائی کے سفر پر نکلے ہیں تو آگے بڑھیں اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے قوم کے مسائل حل کرنے کی طرف بڑھیں۔ ایسے بیانات جن کا کوئی فائدہ نہیں، ایسے مقدمات جن کا کوئی فائدہ نہیں، ایسی گفتگو جس سے ملک و قوم کا کوئی فائدہ نہیں ان باتوں پر وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیا ہماری سیاسی قیادت آج بھی یہ نہیں سمجھ سکی کہ ایسے بیانات اور غیر ضروری مقدمات کے نتیجے میں ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے، روزانہ کی عدالتی کارروائی سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں کے خیالات بدلتے ہیں، سرمایہ کاری متاثر پو گی تو معیشت لڑکھڑاتی رہے گی، حکومتی مشینری ہر وقت مقدمات میں الجھی رہے گی تو قیمتی وقت ضائع ہو گا۔ ماضی میں جو ہوا ہے، کیا ہم ہر وقت اس کو پیٹتے رہیں گے یا کبھی اس فضول بحث سے باہر بھی نکلیں گے۔ میاں نواز شریف ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی سربراہی کرتے ہیں، انہیں حکومت کرنے کا وسیع تجربہ ہے، وہ ملکی حالات اور بین الاقوامی معاملات سے بخوبی واقف ہیں، ان کے دور میں ایٹمی دھماکے ہوئے یہ کریڈٹ ان سے کوئی نہیں لے سکتا لیکن ایٹمی دھماکوں کے فیصلے کا کریڈٹ لیتے ہوئے ایٹمی پروگرام شروع کرنے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اس کا اعلان کرنے جتنے بھی لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے ان کا ذکر نہ کرنا بھی اخلاقی بددیانتی ہے۔ میاں صاحب قوم کو یہ یاد کروانا چاہتے ہیں تو ضرور کروائیں لیکن ایٹمی پروگرام کے لیے کام کرنے والے دیگر اہم افراد کا بھی ذکر ضرور کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اب انہیں قوم کو معاشی اعتبار سے مضبوط بنانے اور زیادہ سے زیادہ مستقبل کے حوالے سے بات چیت کریں۔ توانائی بحران، غربت کا خاتمہ، تعلیمی معیار کو بلند کیسے کرنا ہے، کھیل اور ثقافت کے حوالے سے وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حوالے سے آئندہ دس بیس برس میں وہ ملک کو کہاں دیکھتے ہیں، زراعت کے شعبے میں ان کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ شعبے میں ترقی کے لیے کیا اور کیسے کرنا چاہتے ہیں، قوم سے یہ بات کریں، تین سال کے اہداف بتائیں، پانچ سال کے اہداف بتائیں، وفاق کی سطح پر الگ اور صوبوں کی سطح پر الگ الگ منصوبہ بندی کریں اور قوم کو اعتماد میں لیں، بنیادی ڈھانچے کے اعتبار سے دس بیس برس کا پلان قوم کے سامنے رکھیں۔ کیا ایسے ووٹرز کو متحرک نہیں کیا جا سکتا، کیا ایسی تقاریر سے ان کی توجہ حاصل نہیں کی جا سکتی۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اس حوالے سے سیاسی قیادت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ اگر اب بھی یہ سوچ نہیں ہے تو پھر ہم الجھے رہیں گے۔ 
آخر میں ابن انشاء کا کلام
چل انشاء  اپنے گاؤں میں
یہاں اْلجھے اْلجھے رْوپ بہت
پر اصلی کم، بہرْوپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رْکنا
جہاں سایہ کم ہو، دْھوپ بہت
چل انشاء  اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سْکھ کی چھاؤں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے؟
یہاں ہر اِک بات نرالی ہے
اِس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مْفلس ہونا گالی ہے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سْکھ کی چھاؤں میں
جہاں سچے رشتے یاریوں کے
جہاں گْھونگھٹ زیور ناریوں کے
جہاں جھرنے کومل سْکھ والے
جہاں ساز بجیں بِن تاروں کے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سْکھ کی چھاؤں میں

ای پیپر-دی نیشن