• news

 متوازن لہجے کا شاعر یونس فریدی

اکثر شاعروں کو ان کی زندگی میں اور متعدد نامور شاعروں کو ان کی زندگی کے بعد بھی وہ مقام ان دنیا داروں نے نہ دیا جس کے وہ حقدار تھے۔ اس نا شناشی کی بڑی وجہ ہم ، لوگوں کی ادب اور شاعرانہ صنف سے عدم آشنائی ہی کہہ سکتے ہیں؛؛؛ جیسے جوہری کے بغیر بیش بہاہیرے کی پرکھ ہر کوئی کیسے کر سکتا ہے ، اسی طرح اپنے عہد کے علاوہ کئی صدیوں تک زندہ رہنے والے کلام کے خالق شاعروں کی قدر و قیمت بھی عالی ظرف ادب شناش ہی کرتے ہیں، جن کی تعداد ہمیشہ معاشرے کے اندر آٹے میں نمک کے برابر ہی رہی ہے۔
صاحب دیوان شاعر یونس فریدی بھی اردو غزل گوئی کا ایک بہت بڑا اور معتبر نام ہیں، جس نے پاک پتن کی زرخیز ادبی مٹی سے نمو پائی اور اپنی منفرد شاعرانہ گْل خیزی کے وہ شگوفے برپا کئے جن کی دلکش نوخیزیاں چار سو الگ ہی خوشبوئوں بکھیرتی چلی جا رہی ہیں۔ 
شاعری میں بڑی بحر کسی دریا کی مانند ہوتی ہے جس میں کہیں متواتر لہریں اور کہیں گدلے سیلابی اْتار چڑھاؤ کی کیفیت بھی ملتی ھے لیکن اس کے برعکس چھوٹی بحر لہراتی ، بل کھاتی اور گْنگناتی ندی کی مانند ھے جیسے کسی بلند و بالا پہاڑ کی چوٹی سے کسی دیومالائی آبشار کا رواں ہونا۔ چھوٹی بحر کی شعری نْدرت کسی مہیب اندھیرے میں اچانک روشنی کے جھماکے کی طرح ہے ، جس میں دماغ کسی لْغوی ، معنوی اور مشاہداتی پیچ و خم کی دِقت کے بغیر یکدم منور ہوجاتا ہے۔اصناف سْخن میں چھوٹی بحر کی غزل کسی تاج میں جْڑے نگینے کی مانند ہے کہ دو مصرعوں میں پورا منظر کھینچ کر سامع تک پہنچا دینا غزل گوئی کا اوج کمال ہے۔ اردو شاعروں کی اردو گوئی ہی درحقیقت اردو کے زمانی و مکانی اصل نصاب کی ترویج و تدوین کرتی ہے۔ یہ شاعر لوگ نہ صرف اردو زبان کے کلاکار بلکہ وارث اور نگہبان بھی ہیںاور انسانی مختلف کیفیات و جذبوں کے طلاطم پر مبنی اردو بیانی کی لازوال عکس بندی کے ظہور کا ذریعہ بھی۔ 
کوئی شعر کہنے سے پہلے شاعری کی طویل گرائمر پر عبور بہت ضروری ہے۔ چھوٹی بحر کی غزل تراشی میں بحر خفیف کی مسدس کے تین ارکان ھیں جبکہ متمن چار ارکان پر مشتمل ہے ،،، جن میں زحافات کا استعمال انہیں اور مختصر کر دیتا ہے۔ بحر خفیف میں مزاحف شکل ، بحر خفیف مسدس ، محبون مخدوف مقطوع سمیت غزل گوئی کی لازم بندشیں ہیں جن کے اوزان پر ایک ایک حرف کو پورا تولنے کے بعد ہی کوئی با وزن با معنی لفظ شعری وجود میں آتا ہے۔۔۔ بحر خفیف کے لْغوی معنی 
’’ ہلکے ‘‘ ہیںاسکے تمام ارکان ہلکے ہوتے ھیں اس بحر کو شعرائے ریختہ نے سوائے مسدس مزاحف کے اور کہیں استعمال نہیں کیا۔چھوٹی بحر کے رکن بحر خفیف سالم الاصل کے باقاعدہ پیمانے ہیں۔۔۔ مْتمن ، فاعلاتن مْستفعلن فاعلاتن مستفعلن ؛؛؛ اور مسدس کا اوزانی پیمانہ فاعلاتن مستفعلن فاعلاتن ہے۔ ان شعری پیمانوں کی بندش سے ذرا کم یا ایک سوتر بھی آگے نکلا کوئی حرف پورے مصرعے کو بے وزن کر جاتا ہے۔ شعری پیمانوں کی قید و بند کے اندر ہوئی شاعری کسی لازوال موسیقار کے انتخاب کردہ راگ ، ساز اور سْر کی تخیلاتی تخلیق کے مترادف ہے۔ شعر کہنے سے قبل شعر بْننا کوئی آسان مرحلہ نہیں ہے۔ 
ان شاعرانہ بحروں میں بحر خفیف کے علاوہ مسدس مخبون مخدوف مقطوع کی گرائمر کے بھی الگ الگ پیمانے ہیں، مثال کے طور پر اگر بحر خفیف اور مسدس کو مخبون محذوف کے ساتھ جمع کریں تو اس کا توازنی پیمانہ فاعلاتن مفاعلن فعلن ہے۔ ان تینوں پیمانوں کے اندر بھی شعر کہنے کے لیے فاعلاتن کو فعلاتن کے ساتھ ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے جبکہ فعلن کو فقط فعلان کے ساتھ ہی بدل سکتے ہیں، اور اگر بحر میں مفاعلن ہو تو اسے کسی اور رکن سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ورنہ بحر بدل جائے گی۔ غزل گوئی کے ان تکنیکی اوزان کی تعداد آٹھ ہے جن کے الگ الگ نام ہیں جن میں کسی دو کو ہی ایک شعر میں یکجا کیا جا سکتا ہے اور ان آٹھوں اوزان کی بھی آگے الگ الگ کلاسیکل گردانی گرائمر ہے۔ 
یونس فریدی کی شاعری کا اوزانی تقابلی جائزہ لیں تو ان کے مصروں کا ایک ایک لفظ متوازن مقام پر چمکتا دمکتا دکھائی پڑتا ہے۔۔۔ یونس فریدی کی شاعری کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔
آ گئی کام خود سری ورنہ 
مار دیتی یہ زندگی ورنہ
شکریہ چیختی ہواؤں کا 
ڈسٹی رہتی یہ خامشی ورنہ
٭٭٭
میسر تھا اسے میں 
اسے درکار تھا کوئی 
اگر تم جاں طلب کرتے 
مجھے انکار تھا کوئی؟
٭٭٭
شہر سارا بھی گر دْہائی دے
بہرے حاکم کو کیا سْنائی دے
٭٭٭
عمر گزری ہو جب اذیت میں 
مسکرانے میں وقت لگتا ہے
کون کیا ہے یہ جاننے کے لیے 
اس زمانے میں وقت لگتا ہے
٭٭٭
ہم زباں ہے نہ ہم نوا ہے کوئی 
اس سے بڑھ کر بھی کیا سزا ہے کوئی 
یہ تو شیوا ہے ہم فقیروں کا 
ورنہ غم بھی خریدتا ہے کوئی؟
٭٭٭
میں نے اک عمر سہا ہے تجھ کو 
زندگی تْو کبھی ہوئی ہے میری؟
٭٭٭
مسکراتا کیوں نہیں تْو 
کچھ بتاتا کیوں نہیں تْو
جاں کے دشمن خیر ہے نا 
اب ستاتا کیوں نہیں تو
٭…٭…٭

تنویر ساحر

تنویر ساحر

ای پیپر-دی نیشن