• news

مولانا کوثر نیازی 

جناب کوثر نیازی سے جو ابھی ’’مولانا‘‘ نہیں بنے تھے روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کے دفتر میں آمد و رفت کے دوران رسمی سا تعارف تو تھا ہی مگر زیادہ قریبی تعلق اس وقت ہوا جب مصطفی صادق اور راقم نے لائل پور میں سعید سہگل اور یوسف سہگل کے زیر ملکیت شائع ہونے والے روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے الگ ہوکر اپنا اخبار روزنامہ ’’وفاق‘‘ شائع کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کئے۔ حکومت نے جماعت اسلامی سے مصطفی صادق صاحب کی وابستگی کے پس منظر کے باعث روزنامہ کے بجائے سات روزہ کا ڈیکلریشن دیا۔ وہ بھی ایوب خان کے قائم کردہ قومی تعمیر نو بیورو کے ڈائریکٹر بریگیڈئیر(ر) گلزار احمد سے رابطوں اور ان کی پُرزور سفارش کے بعد۔ کوثر نیازی اس وقت جناب نعیم صدیقی کے اشتراک کے ساتھ لاہور سے سات روزہ ’’شہاب‘‘ شائع کرنے لگے تھے۔ نعیم صدیقی ماہنامہ ’’چراغ راہ‘‘ کی ادارت اور اس کے ضخیم خصوصی شماروں کے باعث جماعت اسلامی میں قارئین کا ایک وسیع حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ کوثر نیازی کا اپنا جریدہ شائع کرنے کا یہ پہلا تجربہ تھا، ہم نے پاک نیوز سروس اورسات روزہ ’’وفاق‘‘ کے ساتھ ساتھ پاک ایڈورٹائزرز کے نام سے ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی بھی قائم کرلی تھی۔ ہمارا پہلا کلائنٹ تو اشرف لیبارٹریز تھا مگر بعد میں حمید سنز لیبارٹریز، نشاط ٹیکسٹائل ملز، کریسنٹ ٹیکسٹائل ملز، زینت ٹیکسٹائل ملز اور رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ جیسے معتبر صنعتی ادارے بھی ہماری ایجنسی کے ذریعے اشتہارات جاری کرنے لگے، صرف کوہ نور ٹیکسٹائل ملز ہمارے کلائنٹس میں شامل نہیں تھی کیونکہ یوسف سہگل کو ہمارا ’’آفاق‘‘ چھوڑ کر اپنا اخبار ’’وفاق‘‘ شائع کرنا اچھا نہیں لگا تھا اور وہ اپنے ملاقاتیوں سے بات چیت میں اس طرح کے تبصرے کرتے، ’’بارہ روپے رِم اخباری کاغذ خرید کر یہ لوگ کس طرح اپنا اخبار نکال سکیں گے اور یہ کہ مصطفی صادق نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک نوجوان کے ساتھ مل کر اخبار نکال لیا ہے، ہم اپنے وسیع سرمایہ سے تو اخبار کو زندہ نہیں رکھ سکے یہ لوگ کیونکر اخبار کی اشاعت برقرار رکھ سکیں گے‘‘۔
ہم اپنی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے ذریعے ’’نوائے وقت‘‘، ’’چٹان‘‘، ’’عوام‘‘، ’’غریب‘‘، ’’سعادت‘‘ اور ’’ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ کو تو اشتہارات بھیج ہی رہے تھے مگر پشاور کا روزنامہ ’’بانگِ حرم‘‘ ہماری خصوصی توجہ کا باعث بنا۔ اس کے ایڈیٹر مشہور عوامی لیگی رہنما ماسٹر خان گُل اور اس کے اردو حصہ کے ایڈیٹر پروفیسر محمد سرور جامعی اور پشتو حصہ کے ایڈیٹر جناب اجمل خٹک تھے۔ ’’شہاب‘‘ کو بھی ہم اشتہارات اشاعت کے لئے بھیجتے رہتے تھے اور جب مصطفی صادق اور میں لائل پور (اب فیصل آباد) سے لاہور آئے تو اور لوگوں کے علاوہ ہم شاہ عالم مارکیٹ میں کوثر نیازی سے ملاقات کے لئے ’’شہاب‘‘ کے دفتر بھی ضرور جاتے۔ کچھ عرصہ بعد جناب نعیم صدیقی اور جناب کوثر نیازی کے راستے جُدا ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی سے بھی کوثر صاحب کی دوری کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ میں اس وقت گورنمنٹ کالج لائل پور میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا۔ جب ہم کوثر نیازی صاحب سے ملاقات کے لئے ’’شہاب‘‘ کے دفتر میں آئے تو انہوں نے مجھے ایک طرف لے جاکر کہا، ’’یار میں ایف اے کا امتحان دینا چاہتا ہوں اور میں نے اپنا امتحانی مرکز کوشش کرکے گلبرگ کے ایک سکول میںرکھوایا ہے، مجھے کچھ گائیڈ تو کردو‘‘۔ اسی طرح ایک بار ہم ان کے دفتر میں اِدھر اُدھر کی باتوں میں مصروف تھے کہ کوثر صاحب نے پوچھا، ’’بھئی وہ سرکاری اشتہارات کے لئے جب اخبار کو حکومت سے منظور کراتے ہیں تو کس محکمہ کے نام خط لکھتے ہیں اور اس خط میں کیا کچھ لکھنا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے جب انہیں بتایا کہ اس محکمہ کا نام ڈیپارٹمنٹ آف فلمز اینڈ پبلی کیشنز (DFP) ہے تو انہوں نے ’’شہاب‘‘ کے لیٹر فارم کا ایک کاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ نام تو مجھے یاد نہیں رہے گا، آپ اس کاغذ پر درخواست لکھ دیں اس طرح ’’شہاب‘‘ کو سنٹرل میڈیا لسٹ میں شامل کرنے کی درخواست میں نے لکھ دی اور کچھ عرصہ بعد ’’شہاب‘‘ کو سرکاری اشتہارات ملنے لگے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ کوثر صاحب کو جس وزارت کے ایک شعبے کا نام یاد نہیں تھا وہ اُس پوری وزارت کے پہلے مشیر اور پھر وزیر مقرر ہوئے۔
 1963ء میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور میں کوثر نیازی صاحب کا ایک بیان شائع ہوا جس میں ان کے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ کا لاحقہ بھی تھا۔ یہ بات میرے علم میں تھی کہ جناب حمید نظامی کوثر نیازی صاحب کے نام کے ساتھ لفظ ’’مولانا‘‘ شائع نہیں کرتے تھے جبکہ روزنامہ ’’کوہستان‘‘ جس کے مدیر منتظم جناب عنایت اللہ اور مدیر ابو صالح اصلاحی (مولانا امین احسن اصلاحی کے بڑے صاحبزادے) تھے کوثرنیازی کو ’’مولانا کوثر نیازی‘‘ بنانے میں پیش پیش تھے۔ میں اس وقت روزنامہ ’’وفاق‘‘ سرگودھا میں کام کرتا تھا جس کا دفتر کچہری بازار میں مقصود میڈیکل ھال کے سامنے واقع تھا، یہاں ’’وفاق‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر جناب آباد شاہ پوری تھے جو ایک ثقہ صحافی اور جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن تھے اور روزنامہ ’’تسنیم‘‘ میں ملک نصراللہ خان عزیز اور جناب سعید ملک کے ادوار ادارت میں بحیثیت مدیر معاون فرائض انجام دے چکے تھے۔ ’’وفاق‘‘ کا ماحول ایک اعتبار سے ’’اینٹی کوثر نیازی‘‘ تھا، مصطفی صادق صاحب کو بھی یہ شکایت رہتی تھی کہ کوثر نیازی سیرت کانفرنسوں میں شرکت کے لئے کرایہ اور معاوضہ وصول کرنے لگے ہیں اور یہ کہ انہوں نے کسی علمی درس گاہ سے دین کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی اور وہ بزعمِ خود ’’خطیبِ اسلام مولانا کوثر نیازی‘‘ بننے نکلے ہوئے ہیں۔ میں نے غصے میں ایک خط جناب مجید نظامی کے نام لکھ دیا کہ جناب حمید نظامی مرحوم تو کوثر نیازی کے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ نہیں لکھتے تھے لیکن آپ نے آخری صفحہ پر شائع ہونے والی ایک خبر میں انہیں مولانا کوثر نیازی لکھ دیا ہے، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ کوثر صاحب اس طرح کی خبریں اپنے ہاتھ سے لکھ کر اخبارات کو بھیجتے ہیں، اس خط کے نیچے مراسلہ نگار کا نام شیخ تاج الدین۔ بلاک نمبر 8، سرگودھا، لکھا ہوا تھا، یہ خط اشاعت کے لئے تو نہیں تھا ایک طرح کی شکایت تھی یا گِلہ لیکن یہ خط ایڈیٹر کی ڈاک میں شائع ہوگیا جس پر کوثر صاحب غصہ میں آگئے اور رہی سہی کسر ہمارے ایک محرمِ راز نے نکال دی جو کسی بات پر ناراض ہو کر سرگودھا سے لاہور چلے گئے تھے اور انہوں نے کوثر صاحب کو فون کرکے یہ بتادیا کہ یہ خط دراصل میرا لکھا ہوا ہے اور اس میں جو نام لکھا ہوا ہے وہ میرا حقیقی نام ہے۔ کوثر نیازی صاحب نے آئو دیکھا نہ تائو اور ’’شہاب‘‘ کے اگلے شمارے میں ایک شذرہ میرے خلاف سپرد قلم کردیا جس میں لکھا گیا کہ وہ پردۂ زنگاری میں چُھپے ہوئے اس شخص کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اس کی تاریں ہلانے والے بھی ان کے علم میں ہیں اور وہ ان سب کے چہروں سے نقاب اتار کر ہی دم لیں گے۔ ’’شہاب‘‘ میں اس شذرہ کا شائع ہونا تھا کہ ہمارے حلقۂ احباب میں ہلچل مچ گئی۔ مصطفی صادق صاحب نے کوثر نیازی صاحب کو ایک تیز و تند خط لکھا جس میں اس شذرہ کے مندرجات پر سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا جس کے جواب میں جناب کوثر نیازی نے یہ لکھ کر معذرت طلب کرلی کہ یہ شذرہ ان کی غیر حاضری میں شائع ہوگیا تھا اور انہیں اس کی اشاعت پر افسوس ہے۔
کوثرنیازی صاحب کی دوسری ناراضی اس وقت ہوئی جب ’’وفاق‘‘ مارچ 1965ء میں لاہور سے شائع ہونے لگا اور اس میں جناب رفیع الدین ہاشمی (اب ممتازماہر اقبالیات) کالم لکھنے لگے، جناب رفیع الدین ہاشمی ضلع سرگودھا کی جماعت اسلامی کے امیر مولانا حکیم عبدالرحمٰن ہاشمی کے بھتیجے اور جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے پرستار سید محبوب شاہ ہاشمی کے صاحبزادے ہیں۔ کوثر نیازی جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے اور مولانا مودودی پر ناروا تنقید کے باعث جماعت کے حلقوں میں ایک ناپسندیدہ شخصیت شمار ہونے لگے تھے۔ … (جاری)

ای پیپر-دی نیشن