• news

حالات کی یکسانیت

وقت کی ڈوریں جب کسی مطلق العنان حکمران کے آہنی ہاتھوں میں تھمی ہوں تو اس کے زبانی و تحریری احکامات آئین و قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کا اِک اشارہ ابرو ہی کسی کی قدر و منزلت کی پامالی یا بحالی کے لئے کافی ہوتا ہے۔ حاشیہ برداروں کے شیریں لب اس کی مدح سرائی کے لئے ہر دم تازہ دم رہتے ہیں۔ وہ اپنے کاسہ لیسوں کے جھرمٹ میں متکبرانہ انداز اپنائے اپنی ہر بات پہ واہ واہ، کیا بات ہے، ٹھیک کہا، اور بجا فرمایا ایسے خوش کن الفاظ سن کر نہال ہوتا رہتا ہے۔ چاپلوسی کی چاشنی میں لتھڑے یہ شبد اس کے کانوں میں مسلسل رس گھولتے رہتے ہیں۔ اپنی تعریف و توصیف سن کر اسے دنیا جہان کی ان گنت خوبیاں اور دانائیاں یکے بعد دیگرے اپنی ذات میں سمٹتی محسوس ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں وہ عقلِ کل کا کامل نمونہ بنا، اپنی پروازِ تخیل کی وسعتیں ساتویں آسمان کی بلندی اور سوچ کی گہرائیاں بحرِ اوقیانوس کی نچلی سطحوں تک پھیلتی ہوئی دیکھتا ہے۔ متَمَلِّق بھی اپنی منفعت کی خاطر مختلف طریقوں اور ہتھکنڈوں سے اسے یوں شیشے میں اتارتے ہیں کہ وہ ان کے سوا کسی اور کی بات کو دَرخورِ اِعتِنا سمجھنا گوارا ہی نہیں کرتا۔ اگر کوئی خیر خواہ دل بڑا کرکے ذرا سی بھی مثبت تنقید یا اصلاح احوال کی کوشش کرے تو وہ اسے مختلف انداز میں بھگتنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات اس حاکم کی نس نس میں راجہ اِندر کی روح حلول کر جاتی ہے اور وہ دنِیا و مافِیہا سے بے نیاز اپنے شب و روز رنگین سے رنگین تر کرنے کی تمناؤں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ چاپلوس اسے ’سب اچھا‘ کی نوید سنا کر اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب یا محدود تر کر رہتے ہیں۔ 
وہ موزوں ترین افراد کے ساتھ مشاورت سے پہلو تہی کرتے ہوئے اپنی ذات کو ہی انجمن خیال کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ اسکے اسی طرح کے ’کمال‘ اسکے زوال کا باعث بنتے ہیں۔ وہ اِس حقیقت سے صرفِ نظر کرتا ہے کہ عمدہ حکومت گری دراصل ٹیم ورک کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ٹیم اچھی ہو تو وہ مثبت نتائج مرتب کرتی ہے لیکن ہمارے ہاں بحیثیت مجموعی میرٹ کی بجائے ذاتی پسند و نا پسند کی بنیاد پر سیاسی ٹیم تشکیل دی جاتی ہے۔ ناقدین کے نام کے گرد سرخ لکیر پھیر دی جاتی ہے۔ انہیں جیل ڈالنا، استعفیٰ لینا، پارٹی سے نکال باہر کرنا یا کم از کم کھڈے لائن لگانا رموزِ حکومت کا اہم جزو گردانا جاتا ہے۔ محمد خان جونیجو کے سوا باقی تمام حکمرانوں میں یہ عادات موجود رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جے اے رحیم، حنیف رامے اور غلام مصطفیٰ کھر کو جیل بھجوایا۔ جنرل ضیاء الحق نے جنیوا اکارڈ کی پاداش میں اپنے تراشیدہ بت محمد خاں جونیجو کو بتکدے سے نکال باہر کیا، پرویز مشرف نے اپنے وزیر اعظم میر ظفراللہ خان جمالی سے استعفیٰ دھرا لیا۔ عمران خان نے جاوید ہاشمی کو باغی سے داغی قرار دے کر اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین کو انٹرا پارٹی الیکشن میں شفافیت لانے کی بنا پر فارغ کیا۔ نواز شریف سے اختلاف رائے کی سزا چوہدری نثار علی خان، شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمٰعیل بھگت رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے تو پیپلز پارٹی کو ’انکلز‘ سے پاک و صاف کر دیا تھا۔
نواز شریف کا تختہ الٹائے جانے کے بعد میں ایک دانشور بیوروکریٹ، جمال مصطفٰی سید کے ہاں پرویز مشرف کے ایجنڈے کی تکمیل کے حوالے سے ان کی رائے لینے کے لئے گیا تو وہ کہنے لگے کہ پہلے انہیں اپنی کابینہ تو مکمل کرنے دیں۔ کابینہ کا اعلان ہوتے ہی دوبارہ ان کے پاس گیا تو وہ سنجیدگی سے کہنے لگے، ’’یار یہ low profile اور این جی اوز کے لوگ کیا deliver کریں گے۔ اگر یہ (پرویز مشرف) اپنے اعلان کردہ پروگرام کا 0.5 بھی مکمل کر لیں تو بڑی بات ہوگی‘‘۔ ان کی پیشین گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ جب عمران خان نے اپنی کابینہ تشکیل دی اور پنجاب سے عثمان بزدار اور کے پی سے محمود خان کو وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان سونپا تو جمال مصطفی سید کے کہے ہوئے الفاظ یاد آ گئے۔ جب دونوں وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی کے خلاف حکومتی وزیروں، اپوزیشن اور میڈیا کی طرف سے تنقید اور چہ میگوئیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا تو کیا عمران خان کسی کی رائے کو خاطر میں لائے؟ الٹا عثمان بزدار کو تو انہوں نے وسیم اکرم پلس کا خطاب بخش دیا اور ہمہ وقت ان کا دفاع کرنے اور کارکردگی سراہنے کو فرض عین سمجھتے رہے۔ تھوڑی سی آنچ آنے پر ہی وزرائے اعلیٰ کی یہ لاڈلی جوڑی بھنے ہوئے دانوں کی طرح بھٹی سے باہر پھدک گئی۔عقل کے اندھوں کو بھی نظر آ رہا تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے پی ڈی ایم پر بالعموم اور مسلم لیگ ن پر باالخصوص مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کے سبھی ذمہ داران نے میاں برادران کو اِس عمل سے باز رکھنے کی اپنے تئیں کوششیں بھی کیں جو بے سود گئیں۔ مختلف مفروضات کا سہارا لے کر تحریکِ عدم اعتماد کا جواز تراشا گیا۔ اب نون لیگ انتخابی مہم کے سمے ووٹروں کے دل و دماغ میں اترنے کا بیانیہ تراشنے کے حوالے سے شدید مخمصے کا شکار ہے۔ دورانِ اقتدار عمران کی بھنور میں پھنسی ہوئی ناؤ ان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد باکمال انداز میں کنارے آن لگی ہے۔ لوگ عمران خان کی بدتر کارکردگی کو بھول گئے ہیں مگر شہباز شریف کی بدتر کارگزاری کو خوب یاد رکھا ہوا ہے۔ دو سال پہلے کی مقبولِ عام ن لیگ شاید اسی خوف کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ پر تکیہ کئے بیٹھی ہے۔ سابقہ ووٹ بنک اِس کا بھی intact سہی مگر ووٹ لسٹ میں نئے درج ہونے والے ووٹروں کے نام پی ٹی آئی قائد کے نام ہو چکے ہیں۔
امریکی صدر رونالڈ ریگن نے سرد جنگ میں سوویت یونین کو ہر محاذ پر شکست دینے کا عزمِ مصمم کیا اور اپنی ٹیم کے ہمراہ اپنے مشن کی تکمیل میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے اس وقت تک اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے چھٹیاں نہیں لیں جب تک وہ اپنی تشکیل کردہ ٹیم کی کارکردگی کو ایک خود کار نظام کے تحت حرکت کرتا دیکھ کر مطمئن نہیں ہو گئے۔ جمہوری نظام میں یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور تھنک ٹینک پالیسیاں بناتے ہیں مگر ہمارے ہاں تو یہ اجارہ اسٹیبلشمنٹ، پارٹی رہنما اور اس کے خاندان تک محدود رہا ہے۔ امریکہ میں صدر دو دفعہ سے زیادہ الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ ہمارے ہاں ’’اگر حالات بدستور رہے‘‘ تو نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم کا عہدہ سنبھالیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی معاملات میں عمل دخل جوں کا توں رہنے کی صورت میں ملکی حالات اِس امر کے متقاضی ہیں کہ صدر، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ صرف ایک ہی ٹرم کے لئے منتخب ہوں۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن