نواز شریف کا چھان بین کا مطالبہ
نواز شریف کے بارے میں ریگولر اور سوشل میڈیا کے ذریعے تاثر یہ پھیلنا شروع ہوگیا ہے کہ ان سے منسوب ’پل میں تولہ پل میں ماشہ‘والا بلغمی مزاج ایک بار پھر متحرک ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات نااہل ہوجانے کے بعد وہ اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ 2017ء میں ’مجھے کیوں نکالا‘ کا سوال اٹھاتے ہوئے لاہور پہنچے تھے۔ بعدازاں ’ووٹ کو عزت دو‘ کی دہائی مچاتے ہوئے احتساب عدالتوں کا سامنا کرتے رہے۔ دریں اثناء ثابت قدمی اور انتہائی بردباری سے ان کا ساتھ نبھانے والی محترمہ کلثوم نواز صاحبہ جان لیوا مرض کی لپیٹ میں آگئیں۔ وہ انھیں لندن کے ایک کلینک میں بسترمرگ پر چھوڑ کر اپنی دختر کے ہمراہ وطن تشریف لائے۔ لاہور ایئرپورٹ پراترتے ہی گرفتار ہوئے اور ان کی حراست کے دوران مسلم لیگ (ن) کو 2018ء کے انتخابات میں بندھے ہاتھوں سے ان دنوں متحرک تر ہوئے عمران خان کا مقابلہ کرنا پڑا۔
میرے اور آپ جیسے سادہ لوح اور کمزور لوگوں کے ساتھ مذکورہ بالا واقعات ہوئے ہوتے تو وطن عزیز کے ’اصل مالکوں‘ کی قوت تسلیم کرتے ہوئے سیاست سے توبہ تائب ہوجاتے۔ یہ اگر ممکن نہیں تھا تو ڈٹ جاتے۔ بے خطر آتش نمرود ہی میں کودنے کی مشق بے سود میں مصروف رہتے۔ نواز شریف مگر سادہ لوح نہیں۔ اقتدار کے انتہائی تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ پلٹ کر جھپٹنے سے قبل اپنی قوت بحال کرنے کے لیے لچک دکھاتے ہوئے ’نئے رائونڈ‘ کا انتظار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے برادرِ اصغر کی ذہانت ان کے بہت کام آتی ہے۔ شہبازصاحب نے لہٰذا اپنی صلاحیتوں اور تعلقات کوخوب آزمایا۔ میاں صاحب کی جیل میں تیزی سے بگڑی ہوئی صحت پر توجہ دیتے ہوئے انھیں لندن بھجوانے کی راہ نکال لی۔ وہ لندن چلے گئے تو نواز شریف کی مشکلیں آسان کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے قمر جا وید باجوہ کو ان کے عہدے کی معیاد میں تین برس اضافے کی سہولت بھی فراہم کردی گئی۔ ’ووٹ کو عزت‘ بھلادی گئی۔
مذکورہ ’عزت‘ بھلادینے کے بعد نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ نے عمران حکومت کے ساتھ نیویں نیویں رہتے ہوئے ورکنگ ریلیشن بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سابق وزیر اعظم مگر کامل طاقت کے سوا کسی اور بات پر مطمئن ہی نہیں ہوتے۔ 2021ء کا بجٹ پاس ہوگیا تو انھیں یہ فکر بھی لاحق ہونا شروع ہوگئی کہ ان کی حکومت کے ’کلیدی فیصلے‘ تو ’کوئی اور‘ کررہا ہے۔انھیں یاد آنا شروع ہوگیا کہ پاکستان کا تحریری آئین انھیں اس ملک کا سب سے باختیار شخص بتاتا ہے۔ ریاست کے ایک اہم ترین ادارے یعنی آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کے بارے میں ’اڑی‘ دکھانا شروع ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں برسوں سے جاری وہ کشمکش شروع ہوگئی جسے ہمارے غیر ملکی یونیورسٹیوں سے پڑھے خوش نصیب دانشور "CIV/MIL" جھگڑوں کا نام دیتے ہیں۔ مجھ سے اس ترکیب کی وضاحت نہ مانگتے ہوئے کرم فرمائیں۔
بہرحال بات لمبی ہوجائے گی۔ رواں برس کے اکتوبر میں نواز شریف وطن لوٹ آئے ہیں۔ تاثر ان کی آمد سے یہ پھیل رہا تھا کہ 1980ء کی دہائی سے اقتدار کے اکھاڑے میں موجود ہونے کی وجہ سے انھوں نے اپنی ’محدودات‘بالآخر دریافت کرلی ہیں۔ پنجابی محاورے والی ’اوقات‘ پہچان لینے کے بعد وہ ایک لطیفے والی ’اسی تنخواہ‘ پر کام کرنے کو تیار ہیں۔ ’اس تنخواہ‘ پر کام کرنے کو رضا مندی مگر ووٹ کے محتاج سیاست دان کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ نواز شریف کو چوتھی بار پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ہوکر نام نہاد’سول بالادستی‘ کو اجاگر کرنا ہے تو یہ ہدف کئی مراحل سے گزرکر حاصل کرنا پڑے گا۔ لوہے کے گولوں میں چھلانگ لگاتے ہوئے منزل پر پہنچنے کی ریس جیسا مرحلہ بھی ان میں شامل ہے۔
8فروری 2024ء کے دن درحقیقت لوہے کے چھلوں سے گزرکر ہدف تک پہنچنے کی ریس ہے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے لیے مختص حلقوں میں مقابلے ہوں گے۔ نواز شریف اسی صورت بالآخر پاکستان کے چوتھی بار وزیر اعظم منتخب ہوپائیں گے اگر 8 فروری کے دن طے ہوئے مرحلے کے دوران ان کی جماعت کے نامزد کردہ امیدوار 342 پر مشتمل قومی اسمبلی میں کم از کم آدھی نشستیں حاصل کرتے نظر آئیں۔ فی الوقت ہمارے عوام میں پھیلے جذبات ایسا ہونا یقینی نہیں دکھارہے۔ ملک بھر میں عوام کی کماحقہ تعداد جن میں جواں سال مرد وخواتین اکثریت کے حامل ہیں۔ ان دنوں جیل میں مقید عمران خان سے جذباتی لگائو سے مغلوب ہوئی نظرآرہی ہے۔
جذبات کو ووٹ میں تبدیل کرنے کے لیے نہایت پیچیدہ حکمت عملی درکار ہوتی ہے۔ نظر بظاہر تحریک انصاف فی الوقت اس سے محروم ہے۔ گلیوں اور بازاروں میں پھیلی ’ہوا‘ اگرچہ ماحول یہ بنارہی ہے کہ مسلم لیگ (نواز) کے لیے سب اچھا نہیں۔ اس جماعت کو بلکہ ’اپنا لاڈلا‘ تصور کیا جارہا ہے اور گزشتہ دو برسوں سے مسلسل بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے مقتدر کہلاتی قوتوں کے ’لاڈلوں‘ کے خلاف محض نفرت ہی ابل رہی ہے۔ نواز شریف عمران خان جیسے ’لاڈلے‘ نظر نہیں آرہے جنھیں 2011ء کے اکتوبر سے نہایت منظم انداز میں ’اقتدار میں باریاں لیتے چور اور لٹیروں‘ کا متبادل بتاتے ہوئے ’مارکیٹ‘ کیا گیا تھا۔
1990ء کی دہائی سے نواز شریف کی ذات اور سیاست کے ساتھ کئی واقعات ہوئے ہیں جن کے ہوتے ہوئے ’نئے لاڈلے‘ کا لقب انھیں اذیت دہ تہمت کی صورت محسوس ہورہا ہوگا۔ اسی باعث وہ اب فقط یہ جاننا ہی نہیں چاہتے ہیں کہ 2017ء میں انھیں کیوں اور کیسے نکالا گیا تھا۔ اپریل 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں اپنی پہلی حکومت کی برطرفی کا جواز بھی طلب کررہے ہیں۔ تین برس کی خجل خواری کے بعد وزارت عظمیٰ کے منصب پر 1997ء میں واپس لوٹے۔ محض دو ہی برس بعد مگر انھیں جنرل مشرف نے براہ راست فوجی مداخلت کے ذریعے گھر بھیج دیا۔ وجہ اس کی کارگل کی پہاڑیوں میں ہوئی ایک جنگ تھی جس نے ان دنوں کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے مینارِ پاکستان کے سائے تلے آنے کی وجہ سے ممکن ہوئے ’معاہدۂ لاہور‘ کے پرخچے اڑادیے تھے۔
بہرحال اب نواز شریف فقط 2017ء میں اپنے نکالے جانے ہی کا نہیں بلکہ اپریل 1993ء اور اکتوبر1999ء میں بھی اپنے ساتھ ہوئے ’ہاتھ‘ کی چھان بین کا مطالبہ کرنا شروع ہوگئے ہیں۔مجھے خبر نہیں کہ اس ضمن میں ان کے برادرِ اصغر انھیں ایک بار پھر ٹھنڈاکرپائیں گے یا نہیں۔