• news

مشرقی پاکستان اور مشرقی پاکستانی دوست (1)

 سرسبز میدانوں اور جھومتے پھولوں کی سرز مین، انناس، کیلا،لیچی اور میٹھے ناریل کی سرزمین، مد ھر سروں والے دریاؤں اور چاندی جیسی چمکتی ہوئی مچھلیوں کی سرزمین، گھنے جنگلات اور خوبصورت چیتوں، دھاڑتے ہوئے شیروں اور ناچنے والے موروں کی سرزمین، سنہری ریشے، خوبصورت ساحلوں اور خوفناک سمندری طوفانوں کی سرزمین ’ مشرقی پاکستان‘ جسے بنگلہ دیش کہتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس پیاری سرزمین اور اس زمین کے باسیوں سے میرا گہرا تعلق رہا ہے۔ یہ تعلق کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی نہ تو کمزور ہو سکا اور نہ ٹوٹ سکا۔ اس زمین کی یاد، اس کی محبت آج بھی میرے دل میں اسی طرح موجزن ہے جس طرح 1965 ء میں تھی ،جس وقت میرا تعلق اس پیار بھری اور بعد میں خون آشام دھرتی سے قائم ہوا تھا۔
1965ء میں جب میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں کیڈٹ تھا تو ہماری پلاٹون میں چار مشرقی پاکستانی کیڈٹ بھی تھے۔ بہت ہنس مکھ اور زندہ دل قسم کے نوجوان، ہمارا خیال تھا کہ بہت نازک مزاج ہوں گے کیونکہ دیکھنے میں بہت دبلے پتلے اور لاغر سے نظر آتے تھے۔ لیکن جب ہمیں سخت جسمانی تربیت سے گزرنا پڑا تو وہ ہم سے کہیں زیادہ پھر تیلے اور مستقل مزاج ثابت ہوئے۔ کا کول کی سخت سردی اور برفباری میں بھی وہ ثابت قدم رہے۔ کسی وقت بھی محسوس نہ ہوا کہ وہ کوئی غیرہیں یاان کی سوچ ہم سے مختلف ہے۔ البتہ کھانے کے معاملے میں وہ ہم سے واقعی مختلف تھے۔ ان کی پسندیدہ خوراک چاول اور مچھلی تھے جو روز تو میس میں نہ پکتے تھے لیکن جس دن چاول مچھلی پکتے ان کی عید ہو جاتی۔ مچھلی اور چاول پکانے میں بھی وہ ہم سے مختلف تھے۔ ہم لوگ پلاؤ، زردہ یا بریانی کی شکل میں چاول پسند کرتے تھے جبکہ وہ ابلے ہوئے چاول پسند کرتے۔ اسی طرح ہمیں باسمتی چاول پسند تھے جبکہ انھیں موٹا ٹو ٹا چاول پسند تھے۔ ہم لوگ تلی ہوئی مچھلی یا مچھلی کے کباب پسند کرتے جبکہ وہ ابلی ہوئی شور بے والی مچھلی پسند کرتے۔ ان کا کھانے کا انداز بھی ہم سے مختلف تھا۔ ہم لوگ چمچ سے چاول کھاتے جبکہ وہ ہاتھ سے گولے بنا کر کھاتے۔ سب سے حیران کن بات ان کا مچھلی کھانے کا طریقہ تھا۔ ہم لوگ مچھلی کھاتے وقت کانٹوں سے خوفزدہ رہتے اور کانٹے چنتے رہتے لیکن وہ بڑا سا ٹکڑا چاہے اس میں کتنے ہی کانٹے کیوں نہ ہوں، بغیر کانٹے علیحدہ کیے منہ میں ڈالتے اور تیزی سے چبا کر اکٹھے کانٹے منہ سے نکال دیتے۔ وہ کانٹے علیحدہ کرنے کا عمل منہ میں لقمہ ڈال کر پورا کرتے۔ شروع شروع میں ہم انھیں اس طرح مچھلی کھاتے دیکھ کر بہت حیران ہوتے۔
ان کا اردو بولنے کا انداز بھی بہت دلچسپ تھا۔ ویسے تو جب بھی کسی مادری زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولنے کی کوشش کرتا ہے تو یقینا اس سے بہت سی غلطیاں سرزرد ہوتی ہیں اور خاص کر تلفظ کی غلطیاں مثلاً ’ہمیں ساول موسلی نہیں ملتا‘ یعنی ہمیں یہاں چاول اور مچھلی نہیں ملتے۔ کیپٹن جلیل کو کیپٹن ذلیل کہتے تو ہم سب خوب محظوظ ہوتے۔ زیادہ لطف اس وقت آتا تھا جب کوئی ٹھیٹھ پنجابی بولنے والا یاٹھیٹھ پشتو بولنے والا کیڈٹ ان سے بات کرتا۔ ایک دفعہ ایک بہت ہی کالے رنگ کے بنگالی کیڈٹ کو ہمارے ایک پنجابی کیڈٹ نے گانا سکھایا اور اس نے بھی بڑی سنجیدگی سے سیکھا۔ ایک غیر رسمی تقریب میں اسے پنجابی گانا گانے کی فرمائش کی گئی تو وہ اٹھا اور بڑی سریلی آواز میں شروع کیا ’نچ نچ ہوئیا میرا گورا رنگ لال وے‘ اس پر ایک خوب قہقہہ پڑا۔ بعد میں یہی گانا ایک افریقی کیڈٹ نے بھی گایا تو اس سے بھی بڑا قہقہ لگا۔ لیکن اس قسم کے لطیفے شروع شروع میں ہوئے بعد میں وہ اردو مادری زبان کی طرح بولنے لگے۔
دسمبر 1965 ء میں میری پوسٹنگ بطور سنسر آفیسر ڈھا کہ ہوئی۔ جنگ کی وجہ سے براستہ ہندوستان پرواز یں بند ہو چکی تھیں، لہٰذا ہمیں براستہ کولمبو(سری لنکا) جانا پڑااوروہ چھے گھنٹے کی لگا تار پرواز تھی۔ یہ پرواز رات کے وقت تقر یباً ڈھائی بجے ڈھا کہ پہنچی۔ جب میں مسافر لا ؤ نج میں پہنچا تو ایک صاحب میرے پاس آئے ۔دعا سلام کے بعد پوچھا، ’آپ مغربی پاکستان سے آرہے ہیں، کوئی فروٹ ساتھ لائے ہیں؟‘ مجھے سمجھ نہ آئی کہ یہ نا واقف شخص فروٹ کا کیوں پوچھ رہا ہے؟ جب میں نے نفی میں جواب دیا تو وہ صاحب دوسرے مسافر کی طرف چلے گئے۔ مجھے بعد میں پتہاچلا کہ فروٹ کی باقاعدہ سمگلنگ ہوتی ہے۔ کیونکہ مالٹا اس وقت یہاںڈیڑھ یا 2 روپے درجن تھا اور وہاں ڈیڑھ یا دوروپے کا ایک دانہ ملتا تھا۔ اسی طرح انگور اور سیب یہاں 4 یا 5 روپے کلو تھے اور وہاں 80 سے 100 رو پے۔ بہر حال بنانے والے اس سے بھی مال بناتے تھے۔ اسی طرح بدلے میں وہاں سے چھالیہ، پان اور چائے لے آتے۔ ڈرائی فروٹ کی قیمتیں بھی وہاں ہماری نسبت زیادہ تھیں۔ 
رات کو مجھے کچھ نظر نہ آیا۔ صبح جب اٹھ کر دیکھا تو سب سے پہلی چیز موسم تھا۔ بہت پیارا، نہ گرمی نہ سردی۔ میں یہاں ایبٹ آباد سے گیا تھا جہاں سردی سے برا حال تھا لیکن وہاں بہار کا سا موسم تھا۔ جرسی پہننے کی ضرورت پیش آئی نہ کوٹ کی۔ لیکن حیران کن بلکہ دلچسپ بات اخباری رپورٹ تھی جس کی سرخی تھی ’ڈھاکہ میں شدید سردی کی لہر‘ مشرقی پاکستان کے حساب سے یہ شدید سردی تھی۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ہر طرف سبزہ ہی سبز ہ نظر آیا۔ جیسے سبز شنیل کا فرش بچھا دیا گیا ہو۔ بعد میں جب مشرقی پاکستان دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے سبزے سے بہت متاثر ہوا۔ کہیں انچ برابر جگہ سبزے سے خالی نہ تھی۔ نہایت خوبصورت اور خوش کن علاقہ۔ 
بطور سنسر آفیسر میری ڈیوٹی جنرل پوسٹ آفس ڈھا کہ میں لگی جو کہ ڈھاکہ کے بہت ہی با رونق بازار میں مسجد بیت المکرم کے سامنے ہے۔ کینٹ سے دفتر تک تقریباً دس کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ وہاں سب سے بڑی اور عام سی سواری سائیکل رکشہ نظر آئی۔ اس سے پہلے مجھے مغربی پاکستان میں سائیکل رکشہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ دیکھا کہ دبلے پتلے کمزور ٹی بی زدہ صرف لنگوٹی میں ملبوس، پسینے میں شرابور دو دو تین تین آدمیوں کو کھینچتے ہوئے رکشہ ڈرائیور نظر آئے تو حقیقی طور پر دکھ ہوا۔ عورتوں کو سڑکوں پر مزدوری کرتے دیکھا تو ان کی حالت اس سے بھی زیادہ قابل رحم تھی۔ اکثر خواتین دبلی پتلی صرف ساڑھی میں ملبوس فاقوں کی ماری نظر آئیں۔ اوپر کے آدھے جسم سے ننگی، ننگے جسم سے بچوں کو دودھ پلاتی ہوئی کام میں مشغول دیکھ کر دلی رنج ہوا۔ مغربی پاکستان کے مقابلے میں غربت کی انتہا تھی۔ بازاروں میں انناس اور کچے ناریل کے ڈھیر لگے تھے جنھیں ہنگالی میں ’داب‘ بولتے تھے۔ انھیں کاٹ کر اندر سے پانی پیا جاتا تھا۔ بہت شیریں اور فرحت بخش تھا۔ آٹھ آنے فی دانہ ملتا۔ سارا عرصہ جی بھر کر پیتے رہے۔ اسی طرح جگہ جگہ کیلے کے ڈھیر نظر آئے جو بہت لمبے اور موٹے سائز کے تھے اور بہت سستے جبکہ انناس اور ناریل مغربی پاکستان میں بہت مہنگے اور نایاب تھے اور اب بھی ہیں۔ (جاری)

سکندر خان بلوچ

سکندر خان بلوچ

ای پیپر-دی نیشن