راجہ پورس سے نواز شریف تک
324 قبل مسیح میں سکندر اعظم ترکی، افریقی، مڈل ایسٹ، سنٹرل ایشیا، ایران اور افغانستان بغیر کسی خاص مزاحمت کے فتح کرتے ہوئے جب پنجاب پہنچا تو اسے یہاں بھر پور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ راجا پورس کی بہادر سپاہ نے اس کا دفاعی حصار توڑ تے ہوئے ذہر آلود تیر سے سکندر اعظم کو زخمی کیا جس کے بعد اس نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ۔مغربی لکھاریوں نے سکندر کو فاتح لکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والا سکندرپنجابی بہادر جوانوں کا وار برداشت نہ کر سکا اور یونان جاتے ہوئے راستے میں ہی انتقال کرگیا
۔ 712 ء میں محمد بن قاسم کے بعد مغلوں، ترکوں اور عربوں کے ساتھ برصغیر آنے والے حملہ آوروں کے ساتھ بہت سے ایسے لوگ بھی یہاں آئے تھے جو بعد ازاں یہیں بس گئے۔مذہبی کردار کی وجہ سے یہ لوگ بہت اثر رسوخ والے تھے۔ اور یہی وہ لوگ تھے جن کی طرف سے غیرملکی حملہ آوروں کا خیر مقدم کیا جاتا تھا ان کی طرف سے کوئی جدوجہد دیکھی گئی اور نہ ہی کوئی مزاحمت۔تاریخ میں کئی واقعات درج ہیں کہ برصغیر کو فتح کرنے والے حملہ آور اپنی پوری کوشش کے باوجود کئی کئی سالوں تک پنجاب پر قبضہ نہ کر سکے۔کئی بار ایسا ہوا کہ حکمرانوں کی شکست کے باوجود پنجابی عوام نے گوریلا وار کی صورت میں بیرونی حملہ آوروں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی۔برطانوی فوجوں نے اٹھارہ سو تین میں دلی فتح کر لیا لیکن اس کے باوجود وہ اگلے 46 سال تک پنجاب پر اپنا پرچم نہ لہرا سکے۔پنجاب کے خلاف لکھنے والے یہ حقیقت کیوں بیاں نہیں کرتے کہ بیرونی حملہ آور لاہور پہنچنے سے پہلے کئی سو کلومیٹر تک کے علاقے بغیر کسی مزاحمت کے فتح کرلیتے تھے،حیرت ہے تاریخ دانوں نے ان لوگوں پرحملہ آوروں کو خوش آمدید کہنے یا اُن کا ساتھ دینے کا الزام نہیں لگایا۔ یہ تہمت پنجاب پراس صرف اس لیے لگائی جاتی ہے کہ پنجابیوں نے ہر دور میں حملہ آوروں کے لیے مشکلات کھڑی کیں۔ بہادرپنجابی دلا بھٹی نے طاقتور ’’مغل سلطنت‘‘ کو پنجاب میں خوب للکارا، رائے احمد خان کھرل کی انگریزوں کے خلاف مزاحمت کو برطانیہ کے مورخین تک تسلیم کرتے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے ’’بابر اکالی تحریک‘‘ میں شامل ہو کر پنجاب کے جنگلات اور دیہی علاقوں میں انگریزوں کی نیندیں حرام کرنے والے بہادر ’’نظام لوہار‘‘ کو کیسے فرا موش کیا جا سکتا ہے۔پنجابیوں کی بہادری کا ایک اعتراف یہ بھی ہے کہ انگریزوں نے بنگالی، سندھی اور بلوچی سمیت کئی علاقوںکی زبان، گرائمر اور ڈکشنریوں کے ارتقا میں حصہ لیا لیکن پنجابی زبان کو کبھی درخوراعتنا نہیں سمجھا۔پنجابی لوگ پاکستان بننے کے بعد بھی ہمیشہ مزاحمت کرنے والوں کے حامی رہے ہیں۔۔ بھٹو بھی ایوبی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کر کے پنجاب آئے تو لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔ نواز شریف نے مشرف اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کر کے مقبولیت پائی۔
وزیر خزانہ اور وزیر اعلی پنجاب کے کامیاب سیاسی سفر کے بعد6 نومبر 1990ء کو نواز شریف نے بطور منتخب وزیرِاعظم حلف اُٹھایا۔اپنے پہلے دور حکومت میں نواز شریف نے نجی شعبہ کے تعاون سے ملکی صنعت کو مضبوط بنانے کی کوششیں شروع کیں- سندھ کے بے زمین ہاریوں میں زمینیں تقسیم کی گئیں۔ وسطی ایشیائی مسلم ممالک سے تعلقات مستحکم کیے گئے۔ اقتصادی تعاون تنظیم کو ترقی دی گئی۔ افغانستان کے بحران کو حل کرانے میں مدد دی۔انہی کی کوششوں سے مختلف افغان دھڑوں نے ''معاہدہ اسلام آباد'' پہ دستخط کیے۔ ان کے دورِحکومت کی اہم خوبی، پریسلر ترمیم کا خاتمہ تھا ۔ملکی ترقی کا سفر جاری تھا کہ صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزام لگاتے ہوئے نواز شریف کو عہدے سے برطرف کر دیا۔نواز شریف نے ہمت نہ ہاری اور مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے عدالت میں اپنا کیس لے گئے۔ 15 جون 1993ء کو منصف اعلیٰ نسیم حسن شاہ نے نواز شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پس پردہ طاقتوں کے دباو پر نواز شریف نے جولائی 1993ء میں ایک معاہدے کے تحت استعفا دے دیا اور صدر کو بھی اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے پھرسے ترقیاتی کام شروع کروائے۔بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو ایٹمی طاقت منوایا۔عالمی طاقتوں کو نواز شریف کا یہ کردار پسند نہ آیا تو انہوں نے اس کے خلاف محاذ آرائی شروع کروادی۔نوازشریف نے ملکی سیاست میں فوج کا کردار کم کرنے کی عملی کوشش کرتے ہوئے فوج کے سربراہ پرویز مشرف کو ہٹا کر نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی کی۔تو عالمی طاقتوں کے ایما پر پرویز مشرف نے پاکستانی اقتدار پر قبضہ کرلیااورپھر ایک خفیہ معائدے کے تحت نواز شریف ملک سے باہر بیجھ دیا گیا۔ نواز شریف کے ملک بدری کے کچھ ہی وقت بعد نائن الیون واقعہ ہوگیا جس کے بعدپاکستان دشت گردی کی لپیٹ میں آگیا ۔کئی سال کی جبریی ملک بدری کے بعد عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف کو ملک واپس آنے کی اجازت ملی اور2013 ء کے عام انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرکے نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ ملکی ترقی کا سفر شروع ہوا تو ایک بار پھر نادیدہ قوتوں نے نواز شریف کے خلاف اپنے مہرے استعمال کرنا شروع کردئیے۔ پانامہ سے شروع ہونے والا کیس اقامہ کے تحت دی جانے والی سزا پر ختم ہوا۔سابق دور میں نواز شریف کے خلاف ہر طرح کے کیس بنائے گئے لیکن وہ ڈٹا رہا،نفرت اور محرومی کا رونا رونے کی بجائے پارلیمنٹ کی مضبوطی کی بات کرتا رہا۔آج ایک بار پھر نواز شریف ملکی سیاست میں طاقتور ترین راہنما مانا جارہا ہے۔ یعنی راجا پورس سے مزاحمت کا شروع ہونے والا سفر آج نواز شریف کی شکل میں جاری ہے ۔