• news

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل 

اگر ہم دنیائے سیاست و معاشرت بارے سوچیں تو ہمیں نسل انسانی دو گروہوں میں منقسم نظر آتی ہے ۔ایک گروہ آزاد دنیا اور دوسرا محکوم دنیا ہے۔آزاد دنیا ہر لحاظ سے خوشحال اور کامیاب ہے کہ عوام کو بھی اپنے سربراہان سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ عوامی نمائندے عوام ہی چنتے ہیں جو اپنے دور حکومت میں بہتر سے بہترین کار کردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے فیصلے صرف عوام ہی کی نہیں بلکہ ریاستوں کی تقدیریں بدل دیتے ہیں اور مدت اقتدار ختم ہونے کے بعد وہ پروٹوکول کے بغیر عام زندگی گزارتے ہیں۔ انصاف کی عملدای اور قوانین سب کیلئے برابر ہیں لہذا اگر کوئی اختیارات سے تجاوز کرنے یا عوامی پیسوں سے اپنے اکائونٹ بھرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اٹھا کر سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے اور سخت سزائیں بھی سنائی جاتی ہیں چونکہ نمائندے اپنی قابلیت اور محنت کی بنیاد پر آتے ہیں اسلئے ایسی نوبت کبھی کبھار ہی آتی ہے کہ عوامی جتھے‘ سربراہان ملت کو اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینکیں ،جبکہ محکوم دنیا کے سربراہان نسل در نسل حکمران رہتے ہیں اور عوام کو صرف اتنا دیتے ہیں کہ وہ نعرے لگانے کیلئے زندہ رہیں حالانکہ انھی کے نام پر مانگتے اور طرز حیات میں آزاد دنیا کے حکمرانوں اور شاہوں کو مات دیتے ہیں ۔
ایسی محکوم ریاستوں میں وطن عزیزبھی شامل ہے جسے حاصل تو آزاد مملکت خداد کے نعروں اور قربانیوں کے ساتھ کیا گیا تھا مگر پھر حاصل کرنے والے دنیا سے چلے گئے اور چند گنے چنے فرنگیوں کے منظور نظر غلام خاندانوں نے اسے اس حال تک پہنچا دیا کہ یہ محکوم دنیا کا حصہ بن کر رہ گیا ۔اب اس کی سالمیت کو قائم رکھنے کیلئے امداد و قرضے بھی کم پڑ چکے ہیں یقینامانگنے میں قباحت نہیں کیونکہ امدادی نظام اسی لئے وضع کیا گیا تھا کہ حکمران ملک و قوم کی فلاح کیلئے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچیں اگرحالات قابو سے باہر ہوجائیں اور ملکی معیشت کو خطرات لاحق ہوں تو خوشحال ریاستوں سے مالی امداد لیکر حالات کو بہتر کیا جا سکے تاکہ عوام الناس کی فلاح و بہبود میں بہتری آئے لیکن صدیاں گزریں کہ محکوم ریاستوں کے وہ حکمران ’’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ۔۔ وہ دکان اپنی بڑھا گئے ۔۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ محکوم ریاستیں نہ صرف ایمان ، ضمیر اورخودی گروی رکھ چکیں ہیںبلکہ اب تو سڑکیں اور اہم جگہیں بھی گروی رکھنے کی نوبت آگئی ہے مگر حالات یہ ہیں کہ جو بچہ ابھی دنیا میں نہیں آیا وہ بھی قرضے میںبال بال پھنسا ہوا ہے۔بد قسمتی تو یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں کہ امداد و قرضے کہاں جاتے ہیںایک بات تو واضح ہے کہ سیاسی عوامی نمائندوں کے چنائو میں مسئلہ ہے کہ ہم انھیں چنتے ہیں جنھیں ویسے چننا چاہیے جیسے بادشاہ اکبر نے انارکلی کو دیوار میں چنوایاتھا لیکن یہ بھی ماننا ہوگا حکومتی نظام کو اس قدر خراب کر دیا گیا ہے کہ شریف اور اچھی شہرت کے حامل افراد کیلئے جگہ ہی نہیں ہے ۔ان حالات میں سب اچھا ہے کہنے والے وہی ہیںجومیلوں ، ٹھیلوں ،ادبی کانفرسوں، تشہیری منصوبوں ، ٹھیکوں ،تعلیم و صحت اور غریب کی امداد کے نام پر اپنی جیبیںبھر لیتے ہیں ۔
بہرحال پھر شوراٹھا ہے کہ آپ اپنی مرضی کا مسیحا چن سکتے ہیں لیکن آپشنز محدود ہونے کا بھی شور ہے یعنی فقط چہرے اور بیانیے بدلیں گے مزید کچھ نئے کی توقع نہ کریں۔ بایں وجہ پرانے سیاسی کاریگروں نے کمر کس لی اور مورچے سنبھال لئے ہیںجن میں پیش پیش مسلم لیگ نون ہے جس کے پاس کوئی مضبوط بیانیہ نہیں ،نہ سمجھ آرہی ہے کیا کہنا چاہیے اور جو کہتے ہیں اسکی کا کوئی معقول جواز پیش نہیں کر سکتے کیونکہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ نظر آرہا ہے ۔سو یہی نعرہ لگا کر بات ختم کر دیتے ہیں کہ اگلی حکومت ن لیگ کی ہوگی دوسری طرف پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ’’اے واری ساڈی اے‘‘۔اسی لئے پرانے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے پرانے سیاسی کاریگروں جن کا ووٹ بینک نسل در نسل قائم ہے ، جنھیں کوڑا کرکٹ کہہ کر مسترد کر دیا تھا انھی کے آستانوں پر حاضریاں لگ رہی ہیں، ہر قسم کی ایڈجسٹمنٹ کرنے کیلئے رابطوں میں مصروف ہیں اور اپنا تھوکا چاٹ رہے ہیں ۔ عوامی رائے تو ہموار نہیں ہو سکی البتہ ماحول بنا یا جا رہا ہے جس سے ظاہر ہو کہ ہر کوئی ن لیگ کا ٹکٹ چاہتا ہے ۔جب مد مقابل کسی دوسرے کو آنے نہیں دیا جائے گا ،بندر بانٹ کا ماحول پیدا کر دیا جائے گا پھر سیٹ ایڈ جسٹمینٹ ہونگی اور حسب سابق بیانیہ بدلے گا لیکن دل کش عہدے حاصل کرنے کے بعد بالکل اسی طرح بھول جائینگے جس طرح کوئی بڑا اژدھا کسی قیمتی جان کو ہضم کرنے کے بعد بھول جاتا ہے ۔یہ ملک ماضی کے ایسے ہی وطیروں سے دو لخت ہوا تھا مگر اسی طرز کی ہوس اقتدار کے بعدیہ خدشہ ہے پھر کہیں ماضی کی روش کو نہ دہرا دے اور اگر حکمرانوں نے اور اداروں کے سربراہان نے آئین پاکستان اور ملکی سالمیت کو نظر انداز کیا تو پھر حالات انتہائی پریشان کن ہونگے ۔ یہی دیکھ لیں کہ نگران سیٹ اپ بھی تشہیری منصوبوں میں سرمایہ اور وقت صرف کر رہا ہے اور اپنے اختیارات اور مینڈیٹ سے تجاوز کر رہا ہے حالانکہ گڈ گورننس میں ناکامی کی وجوہات کو ختم کرنا ضروری تھا لیکن یہ بھی منظور نظر افراد کو نوازنے اور اپنے نمبربنانے میں مصروف ہیں۔درحقیقت کسی نے بھی عوامی ریلیف اور ملکی سالمیت کیلئے حقیقی معنوں میں ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر کام نہیں کیا بلکہ اپنا عرصئہ حکومت حصول مفادات اور دلکش مستقبل بنانے میں گزارا ہے۔ ایسے میں عوام بھی ذہنی کشمکش کا شکار ہیں کہ کہاں سے وہ ایسے نمائندگان لائیں جوکہ عوام اور ملک کے لیے مفید ہوں کیونکہ وہ تو ناپید ہوچکے جو بیچتے تھے دوائے دل ۔
٭…٭…٭

رقیہ غزل

رقیہ غزل

ای پیپر-دی نیشن