سخاوت کا اجر
جس کو اللہ تعالی نے مال ودولت سے نوازا ہو اسے قناعت اختیار کرنا چاہیے نہ کہ حرص۔ جس کے پاس دولت ہو اسے سخی ہونا چاہیے نہ کہ بخیل۔
ارشاد باری تعالی ہے ” اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ( سورة البقرة )۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ” (اے محمد ) لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ( اللہ کی راہ میں ) کس طرح کا مال خرچ کریں۔ کہہ دو (جو چاہو خرچ کرو لیکن ) جو مال خرچ کرنا چاہو وہ درجہ بدرجہ اہل استحقاق یعنی ماں باپ کو ، قریب کے رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو (سب کو دو) اور جو بھلائی تم کرو گے خدا اسے جانتا ہے۔ ( سورة البقرہ )۔
اور جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے مال کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس کے مال کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (سورة البقرة )۔
جو لوگ خدا کی خوشنودی کے لیے اور خلوص نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اس پر مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے اور اگر مینہ نہ پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور خداتمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔ ( سورة البقرة )۔
ارشاد باری تعالی ہے اور جو مال تم خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہیں کیا جائے گیا۔ (سورة البقرة )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : سخاوت جنت میں لگایا گیا ایک پودا ہے۔ سخاوت کرنے والا اس کی شاخ تھام لیتا ہے وہ اسے جنت تک لے جاتی ہے۔ بخل جہنم میں لگایا گیا ایک پودا ہے بخیل اس کی ٹہنی پکڑ لیتا ہے وہ اسے جہنم میں لے جاتی ہے۔ حضور نبی کریم ? نے فرمایا دو عادات اللہ تعالی کو بہت پسند ہیں سخاوت اور عمدہ اخلاق۔ دوعادات سے اللہ تعالی کو بہت زیادہ نفرت ہے بخل اور گندے اخلاق۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی بخیل اور بد خو کو دوست نہیں رکھتا۔
حضور نبی کریم رﺅف الرحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا : سخی کی لغزش کو معاف کر دیا کرو۔ جب اسے تنگ دستی کا سامنا ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کی دست گیری فرماتا ہے۔ آپ نے فرمایا سخی کا کھانا دوا ہے بخیل کا کھانا مرض ہے۔ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا سخی اللہ تعالی جنت اور لوگوں کے قریب ہے بخیل اللہ تعالی، جنت اورلوگوں سے دور اور جہنم کے قریب ہے۔