وزیراعظم کا دہشت گردوں سے سو سال لڑنے کا عزم
پیر کو وزارت داخلہ میں شہدا کی یادگاری تصاویر کی گیلری کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے شہدا کے لواحقین سے گفتگو کے دوران کہا کہ ملک و قوم کیلئے قربانیاں دینے والے شہدا کو پوری قوم خراج عقیدت پیش کرتی ہے، اگر کوئی تائب ہو کر رجوع کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ شہدا کے لواحقین سے معافی مانگے، اگر وہ مکمل طور پر اپنی غلطی قبول اور غیر مشروط سرنڈر کرے تو ریاست فیصلہ کر سکتی ہے، اگر ایسا نہیں تو ہم دہشت گردوں سے سو سال تک بھی لڑنے کیلئے تیار ہیں اور ریاست ایسے لوگوں سے بات چیت نہیں کرے گی۔
بے شک امن و امان قائم رکھنا اور شرپسندوں کو نکیل ڈالنا ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ ریاست ایسے عناصر کیلئے نرم گوشہ رکھ سکتی ہے جو تائب ہو کر رجوع کرنا چاہتے ہوں۔ اگر کوئی غیرمشروط سرنڈر نہیں کرتا تو ریاست ایسے عناصر کو پوری قوت سے کچلنے کا حق رکھتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی اور انتشار کے سب سے بڑے سہولت کار بھارت اور افغانستان ہیں۔ بالخصوص کابل انتظامیہ تو عملاً پاکستان میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرنے میں دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کررہی ہے۔ جب سے پاکستان کی معاشی اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر یہاں سے غیرقانونی مقیم غیرملکیوں بشمول افغان باشندوں کے انخلائکے فیصلے پر عملدرآمد شروع ہوا ہے‘ کابل انتظامیہ کی پاکستان کیخلاف مخاصمت کھل کر سامنے آچکی ہے اور وہ اپنے سہولت کاروں‘ ایجنٹوں اور کالعدم تنظیموں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ پاکستان تو ہمیشہ افغانستان کا خیرخواہ اور اسکی ترقی و خوشحالی کیلئے کوشاں رہا ہے۔ امن عمل کیلئے پاکستان کی کاوشیں پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ مگراس سب کے باوجود افغانستان کی طرف سے کبھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ طالبان کی عبوری حکومت بننے کے بعد قوی امید تھی کہ اب کابل انتظامیہ کا رویہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومتوں سے مختلف ہوگا اور وہ افغانستان کیلئے پاکستان کی کاوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکے ساتھ اچھے تعلقات کا آغاز کریگی مگر امارات اسلامی بھی بھارتی سازشوں کا شکار ہو کر پاکستان کے خلوص کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے آنکھیں دکھانے لگی۔ گزشتہ دنوں افغانستان سے دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے والی 23 تنظیموں کا انکشاف ہوا ہے جس میں 17 تنظیموں کے ہدف پر پاکستان ہے۔ بے شک پاکستان کی سول اور عسکری قیادتیں دہشت گردی کیخلاف سو برس لڑنے کا عزم رکھتی ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔ مگر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے ختم کرنے اور ملک کو انتشار کی کیفیت سے نکالنے کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات اور پالیسی پر نظرثانی کی جائے‘ انخلاء کا عمل جتنی جلد ہو سکے مکمل کیا جائے۔ بھارتی سازشوں پر بھی کڑی نظر رکھی جائے۔ ان دونوں ملکوں کیلئے کسی نرم گوشے کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے