تاحیات نااہلی پر چیف جسٹس کے معنی خیز ریمارکس
سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام ایڈووکیٹ جنرل حضرات کو نوٹس جاری کر دیئے۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے نااہلی کی مدت کے تعین کا معاملہ سپریم کورٹ کے وسیع تر بنچ کے سامنے مقرر کرنے کیلئے ججز کمیٹی کو بھجوا دیا۔ اس کیس کی سماعت اب آئندہ ماہ جنوری میں ہوگی۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بنچ میں اس کیس کی سماعت کے دوران یہ امر واضح کیا کہ اس کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائیگا۔ فاضل چیف جسٹس نے دوران سماعت جو ریمارکس دیئے وہی اس کیس کی اصل بنیاد ہیں اور ان ریمارکس کو پیش نظر رکھتے ہوئے بادی النظر میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور تکمیل پاکستان پارٹی کے قائد جہانگیر ترین کو 2017ء اور 2018ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے ملنے والی تاحیات نااہلی کی سزا غیرموثر ہو چکی ہے۔ اس سلسلہ میں فاضل چیف جسٹس کے یہ ریمارکس معنی خیز ہیں کہ نااہلیت کے معاملہ میں ایکٹ آف پارلمینٹ میں کی گئی ترمیم چلے گی یا سپریم کورٹ کا فیصلہ۔ اونٹ نے کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے‘ دونوں ایک ساتھ تو نہیں چل سکتے۔ اسی تناظر میں فاضل چیف جسٹس کے یہ ریمارکس دور رس اثرات کے حامل ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 کی شمولیت کے بعد تاحیات نااہلی سے متعلق تمام فیصلے غیرموثر ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں آئین کی دفعہ 62‘ ون ایف کی تشریح کرتے ہوئے میاں نوازشریف کو انتخابات میں حصہ لینے اور اپنی پارٹی کی قیادت سنبھالنے کیلئے تاحیات نااہل قرار دیا جبکہ آئین کی اس دفعہ میں تاحیات نااہلی کی سزا متعین ہی نہیں تھی اور اسی آئینی سیکشن کی ایک ذیلی شق میں نااہلی کی سزا کی میعاد پانچ سال مقرر کی گئی تھی چنانچہ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ اس وقت بھی سخت تنقید کی زد میں آیا جسے کسی مخصوص ایجنڈے کا حصہ قرار دیا جاتا رہا۔ اسی تناظر میں اسمبلی کی تحلیل سے قبل ایکٹ آف پارلیمنٹ میں ترمیم کرکے نااہلیت کی سزا واضح طور پر پانچ سال متعین کردی گئی۔ اب سپریم کورٹ میں یہ کیس زیرسماعت ہے جس کے فیصلہ سے یقینی طور پر نااہلیت کی مدت کا مستقل تعین ہو جائیگا۔ تاہم سیاسی بنیادوں پر ماضی میں صادر ہونے والے عدالت عظمیٰ کے فیصلے موضوع بحث ضرور بنتے رہیں گے۔