• news

شہرِ منافق کے مکین

قارئین! جو دوست اس خاکسار کی تحریروں کو شروع دن سے پڑھ رہے ہیں اْنھیں یاد ہو گا کہ آج سے سات سال پہلے میں نے اپنا ایک کالم تھنک ٹینک کے عنوان سے لکھا تھا جس میں اس خاکسار نے وہ تفصیل بیان کی تھی کہ جب فیس بْک پر اس نے اپنے نواسے، نواسیوں، پوتوں اور پوتیوں کے ساتھ اپنی ایک تصویر شئیر کرکے اْسے ٹرپل ون بریگیڈ آف طارق امین کا عنوان دیا تھا تو میرے ان بچوں نے اس پر کس طرح میری کلاس لی اور مجھے باور کرایا کہ اگر میں اس پوسٹ کا عنوان ٹرپل ون بریگیڈ کی بجائے تھنک ٹینک لگاتا تو کیا ہی بہتر ہوتا۔
لندن پہنچنے پر اس اتوار میرے اس تھنک ٹینک کا پہلا اجلاس تھا جسکی شروعات میرے پوتے جناب شاہ زین صاحب نے اپنے اس سوال کے ساتھ کی کہ میاں نوازْشریف کی (چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی جسے کچھ ناقدین الگ ایک منفرد نام سے یاد کرتے ہیں) وطن واپسی، عمران خان کے مختلف مقدمات میں ٹرائل اور پھر اس تناظر میں پاکستان میں فروری کے مہینے میں جن انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے اْن پر اس اجلاس میں تفصیلی گفتگو سے پہلے  کیوں نہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ پاکستان کی سیاست میں اجکل ویڈیو، اڈیو لیکس اور پھر اخلاق سے گرے الزامات سے بھرے انٹرویوز کا جو سلسلہ چل نکلا ہے اس کا اصل موجد یا دوسرے لفظوں میں ماسٹر مائینڈ کون ہے۔ انکے اصل عزائم کیا ہیں اور لامحالہ اس ساری ایکسرسائز کا اینڈ رزلٹ کیا ہو گا۔
مغربی معاشرہ جسکی ہم لوگ ہر وقت کلاس لیئے رکھتے ہیں اس میں ہزار بْرائیاں ہونگی لیکن اسکی ایک خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اگر کسی بات کا کوئی جواب دینا ہو یا کسی کو کوئی بات سمجھانی ہو تو وہ دلیل اور حقائق کا سہارا لئے بغیر کوئی بات نہیں کرتے۔ پیشتر اسکے کہ راقم شاہ زین کے سوال کا کوئی جواب دیتا میرے پاس کھڑی میری بیٹی قدسیہ جو کہ یہاں آئی ٹی کی دنیا میں اپنے پروفیشنلزم کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتی ہے اور جسے ہم ڈاکٹر کیو کے نام سے بلاتے ہیں وہ شاہ زین کو مخاطب کر کے بولی کہ بیٹا  آپ یہاں برطانیہ میں پیدا ہوئے ہو اور بڑی مشکل سے اپنی اس چودہ سالہ زندگی میں دو یا تین دفعہ چند دنوں کیلیئے پاکستان گئے ہو جہاں آپ اپنے پاکستان کے کلچر کا گہرائی سے مطالعہ نہیں کر سکے۔ ڈاکٹر کیو بولی، بیٹا کہتے ہیں ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے، اب اسے ہماری بدنصیبی کہو یا المیہ کہ ہمارے پاکستان میں جوائنٹ فیملی سسٹم یا دیہات میں رہنے والی ان پڑھ یا جاہل عورت ہی نہیں معاشرے کی وہ پڑھی لکھی خواتین بھی جو معاشرے میں اپنے آپکو ماڈرن، مہذب اور ایلیٹ کہلوانے میں بڑا فخر محسوس کرتی ہیں انکی اکثریت بھی اکثر و بیشتر ہر وقت اپنے رشتہ داروں اور اردگرد والوں کے ہاں آئے گئے کی ٹوہ اور انکے حالات جاننے کے چکروں میں لگی رہتی ہیں اور اس انجام سے بیخبر ہیں کہ انکی یہ حرکات آنے والی نسل پر اپنے کیا اثرات چھوڑنے جا رہی ہیں زیادہ تر وہ اپنے چھوٹے بچوں اور نوکروں سے سراغ رسانی کا کام لیتی ہیں، تو بیٹا تمہارا پہلا سوال کہ اسکا اصل موجد اور ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ یاد رکھو بیٹا یہ کوئی ایک گروہ، کوئی ایک ادارہ نہیں، یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ یہ وہ تربیت ہے جو ہم نے ماں کی گود سے حاصل کی ہے کہ کس طرح دوسروں کے گھروں میں جھانکنا ہے اور پھر انکے سکینڈل بنا کر انکاتمسخر اْڑانا ہے۔ بیٹا ہم اس نبی کی اْمت  ہیں جن کا فرمان ہے کہ آپ کسی کے گھر میں دستک کے بغیر داخل نہ ہوں حتی کہ حقیقی باپ بھی جب اپنی بیٹی کے کمرے میں داخل ہو تو وہ دروازے پر دستک دے اور یہاں جب یہ کہا جائے کہ ‘‘یہ تو ابھی کچھ بھی نہیں، ابھی تو اور بہت کچھ ہے ‘‘ تو پھر آپ اندازہ کر سکتے ہو کہ ہم اخلاقی تنزلی، دیوالیہ پن کی کن حدوں کو چھو رہے ہیں۔ اور جسطرح ایک دوسرے کے کپڑے تار و تار کرکے ہم ایک دوسرے کو ننگا کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں وہاں پنجابی کا یہی محاورہ سچ ثابت ہوتا ہے کہ ‘‘ چھج کی آکھے چھاننی نوں ، جدھے آپ نو سو چھید’’ قدسیہ بیٹی بولی بیٹا آپکے سوال کے پہلے حصے کا جواب میں نے دے دیا، دوسرے حصے کا جواب اب ہمارا لالہ دیگا۔
بن بْلائے سپیکر قدسیہ کی باتیں جہاں ہماری محفل کیسب شرکاء￿  کیلیئے فکر کی ندیاں بہا گئیں وہاں مجھے لگا کہ ڈاکٹر کیو کے اس بے لاگ تبصرے کے بعد دوسرے حصہ کا جواب میرے لیئے اب کسی طور جوئیشیر لانے سے کم نہ ہو گا جسکی تفصیل
جگہ کی بندش کی وجہ سے اگلے کالم میں لکھونگا۔ لیکن سردست اتنی عرض کرنے پر اکتفا کرونگا کہ جان تو اللہ کو دینی ہے، ادارے کی غیر جانبدرانہ پالیسی اور تمام حفاظتی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت کے زمینی حقائق کی روشنی میں راقم صرف اتنا کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ موجودہ حالات و واقعات اور تمام ایپی سوڈز اس بات کی چْغلی کھا رہے ہیں کہ 2013ء ہو یا 2018ء یا 2023ء ، ان تمام سالوں میں اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ صرف ایک نظر ڈالیں ہماری سیاسی اشرافیہ نے 2013ء  سے لیکر 2018ء تک اپنے ملک کے میدانوں میں، خود ساختہ مہذب اور پڑھا لکھا ہونے کے دعویداروں نے 2018ء سے لیکر ستمبر 2023ء تک لندن کی سڑکوں پر کون کونسے تماشے نہیں لگائے اور دنیا کے سامنے اپنے پاکستان کا چہرہ داغدار کرنے میں کیا کسر نہیں چھوڑی۔ اور اب 2023ء کے اس آخری عشرہ میں ان ننگی آڈیو، وڈیو لیکس اور پرگندہ انٹرویوز کی نئی ایکسرسائز کے ساتھ دنیا کو اب پاکستان کا کونسا نیا چہرہ دکھانے جا رہے ہیں۔ اور کیا بتانے جا رہے ہیں کہ جسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں اس میں اسلامی شعائر کا کیسے تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں ان سماجی، اخلاقی اور مذہبی اقدار کی کیا اہمیت اور اصلیت ہے۔ راقم مزید کچھ کہنا نہیں چاہتا بس ساغر کا یہ شعر منقول کرنا چاہتا ہوں کہ:

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر-دی نیشن