انتخابات اور آرمی چیف کا دورہ امریکہ
امریکہ ہمیشہ سے پاکستان کے معاملات پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ ان تعلقات میں ضرورتوں کے مطابق اتار چڑھاؤ بھی ہوتے رہتے ہیں۔ خاص کر جب امریکہ کو ہماری ضرورت ہوتی ہے ہم اس کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں اور جب ضرورت نہیں ہوتی اس وقت بیاعتنائی بھی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ ہمیں عیاشی کروانے والا بھی امریکہ ہے اور ہمارے لیے مسائل کا موجب بھی امریکہ ہی ہے۔ "تمہی نے درد دیا ہے، تمہی دوا دینا" والا معاملہ ہے۔ امریکہ نے سب سے زیادہ ہماری مدد کی ہے اور جو خدمت پاکستان نے امریکہ کی کی ہے وہ بھی شاید ہی دنیا میں کسی اور نے کی ہو۔ امریکہ کو واحد سپر پاور کا سٹیٹس دلوانے میں بھی پاکستان کا بنیادی کردار ہے۔ خطے کی سیاست میں پاکستان ہمیشہ امریکہ کا بااعتماد پارٹنر رہا ہے لیکن اب چین کی وجہ سے امریکہ بھارت کے زیادہ قریب ہے۔ مگر امریکہ کو یہ بھی علم ہے کہ جو کارکردگی پاکستان دکھا سکتا ہے وہ بھارت نہیں۔ پاکستان نے امریکہ کے کئی اہداف مکمل کر کے دیے ہیں۔ بھارت تاحال امریکہ کی امیدوں پر پورا نہیں اتر پا رہا۔ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات میں سول سیٹ اپ پر اتنا اعتماد نہیں جتنا کہ ملٹری کے ساتھ ہے۔ سیاستدانوں کی بجائے امریکہ کے پاکستانی آرمی کے ساتھ تعلقات زیادہ بہتر اور پائیدار رہے ہیں۔ سول سیٹ اپ کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کشیدہ بھی ہوں تو پینٹاگون اور جی ایچ کیو کا رابطہ برقرار رہتا ہے۔ دفاعی تعاون کے حوالے سے بھی پاکستان کی زیادہ تر ضرورتیں امریکہ سے ہی پوری ہوتی رہی ہیں۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ امریکہ کو خطے میں جب بھی بڑے اہداف کا سامنا ہوا اس وقت آرمی رجیم نے بھر پور کردار ادا کیا اور ان ادوار میں پاکستان کے عوام زیادہ خوشحال ہوئے۔ اقتصادی ترقی کو عروج ملا۔ ہماری سول اور فوجی قیادت جب بھی تبدیل ہوتی ہے تو نئے آنے والے امریکہ اور سعودی عرب کا دورہ ضرور کرتے ہیں۔ اب چین بھی اس میں شامل ہو چکا ہے۔ ہمارے آرمی چیف سید عاصم منیر سعودی عرب اور چین کا دورہ کر چکے ہیں لیکن امریکہ کا دورہ وہ ایک سال بعد کر رہے ہیں۔
موجودہ حالات کے پیش نظر آرمی چیف کے دورہ امریکہ کو بہت اہم سمجھا جا رہا ہے خاص کر پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات، آئندہ کے سیٹ اپ، پاکستان کے اقتصادی معاملات، خطے کی سیاست اور دفاعی معاملات کے حوالے سے آرمی چیف کے دورہ امریکہ کو آئندہ کے حالات کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دورہ کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ دورہ سے قبل اعلی امریکی حکام پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کا نمائندہ برائے افغانستان اور دیگر سنئیر حکام میں رابطے بھی ہوئے۔ بتایا جا رہا ہے کہ آرمی چیف کے دورہ امریکہ کا ٹاپ ایجنڈا کاؤنٹر ٹیررازم سٹرٹیجک معاملات ہوں گے تاہم پاکستان کے ناہموار معاشی حالات کے حوالے سے آرمی چیف بہت زیادہ فکرمند ہیں اور معاشی استحکام کے حوالے سے وہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انھوں نے متعدد دوست ممالک سے معاشی سہولتیں حاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ وہ امریکہ سے بھی اقتصادی تعاون کے لیے بات چیت کریں گے۔ سیکیورٹی کے معاملات اور خاص کر افغانستان سے دہشت گردی کے خطرہ کے پیش نظر تعاون، افغانوں کی واپسی اور امریکہ میں بسنے کے منتظر 25 ہزار افغانوں بارے حتمی فیصلے بھی متوقع ہیں۔
ماضی میں بعض سیاسی معاملات کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات میں جو تلخیاں پیدا ہوئی تھیں وہ اس دورہ سے ختم ہوں گی اور ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ امریکہ کے اقتصادی تعاون سے پاکستان میں اقتصادی استحکام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ آرمی چیف کے دورہ امریکہ سے اگر معاملات طے ہو جاتے ہیں تو پاکستان میں صورتحال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے اور پھر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں بھی متوقع ہیں۔ نئے سیاسی سفر کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ آرمی چیف کے دورہ امریکہ سے سٹرٹیجک اور اقتصادی حوالے سے کوئی بریکنگ نیوز مل سکتی ہے۔