• news

بدھ  ‘  28جمادی الاول  1445ھ ‘  13  دسمبر 2023ء

ہمیں صاف شفاف انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے, خالد مقبول صدیقی۔ 
 سب کی اپنی اپنی عینک ہے ،کسی کو صاف شفاف انتخابات ہوتے ہوئے نہیں دکھ رہے کسی کو سرے سے ہوتے ہوئے ہی نظر نہیں آرہے کوئی ان میں کچھ دنوں کی تاخیر چاہتا ہے۔ کئی توانتخابات کو مشق لاحاصل بھی قرار دیتے ہیں۔ کرونا کے دنوں میں بچوں کو بغیر امتحان کے اگلی کلاسوں میں پرموٹ کر دیا گیا، یہ تجربہ بہت سے بچوں کے لیے منفرد سنہری اور کامیاب تھا۔ سیاست میں یہ تجربہ کیوں نہیں دہرایا جا سکتا؟ ضروری نہیں 2018 ء کے الیکشن کو ہی بنیاد بنایا جائے،2013ء ، 2008ء ، 2002ء کے انتخابات میں سے کسی ایک پر پرچی ڈال کر اتفاق کیا جا سکتا ہے- اس پر بھی اعتراضات اْٹھیں گے۔ کچھ حکومتیں اور خیر وزیراعظم تو ایک بھی نہیں جس نے مدت پوری کی ہو۔ جو حکومتں مدت پوری نہ کر سکیں ان کو موقع دیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے محمد خان جونیجو کی حکومت بے مدت ختم ہو گئی تھی۔جو نیجوصاحب ملک راہی عدم ہو چکے ہیں، بے نظیر کی دو بار چند سال کے اندر حکومت کا خاتمہ بالجبر ہوا۔ میاں نواز شریف بھی اسی تجربے سے تین بار گزرے۔ وہ ماشاء اللہ حیات اور فعال ہیں۔ وہ شاید اس طرح حکومت میں آنے سے انکار کر دیں تاہم پوچھ لینے میں کیا حرج ہے؟ آج ویسے بھی وہ کلین سویپ کرتے ہوئے بتائے جا رہے ہیں، دکھائے جا رہے ہیں۔ ایک تو ہماری یکسوئی نہیں رہتی، بات کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے، متحدہ کو انتخابات دھندلے نظر آرہے ہیں۔ شفاف انتخابات وہی تھے جن میں متحدہ کراچی اور حیدرآباد میں صفایا کر دیا کرتی تھی-صفائی کے بعد اب شکوہ کناں ہے اور حسرت ناتمام ہے۔
 لوٹ ماضی کی طرف اے گردش ایام تو۔
٭ …٭…٭
نگران وزیراعظم نے دیوار شہداء کا افتتاح کر دیا۔ بینظیر بھٹو کی تصویر بلاول نے لگائی۔ 
قومیں اپنے شہداء کو نہیں بھولتیں۔ شہید زندہ ہوتا ہے۔ دیوار شہداء ہمارے شہیدوں کیلئے خراج تحسین ہے۔ شہداء کی تعداد پاکستان میں لاتعداد ہے۔ ہر کسی کی تصویر اس دیوار پر چسپاں نہیں ہو سکتی۔ کوئی کمیٹی بنی ہوگی‘ کوئی طریقہ کار طے ہوا ہوگا جس کے تحت دیوار شہداء پر تصویر لگانے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ وہ دیوار ہوگی جس میں انگلی کٹوا کر شہداء میں نام درج کرانے والوں کی تصویر آویزاں ہونا ممکن نہیں۔ خبرمیں انکی پوری تفصیل دی گئی ہے۔ دیوار پر چالیس شہیدوں کی تصویریں لگائی گئی ہیں۔ ویسے تو ہر پاکستانی کے پاس جیب میں تین مہریں تو ہوتی ہیں جو کسی بھی وقت کسی پرثبت کردی جاتی ہیں۔ شہید‘ غدار اور کافر۔ مگر اس دیوار پر کوئی مہر نہیں چل سکتی۔ حیات محمدخان شیرپائو کی تصویر دیوار پر لگائی گئی ہے۔ باقی وہ شہید ہیں جو مرتبہ شہادت پر انکے بعد یعنی فروری 1972ء کے بعدفائز ہوئے۔ دیوار پر دہشت گردی کے دوران داعی اجل کولبیک کہنے والوں کی تصاویر لگی ہیں۔ ان تصاویر میں 18 اگست 1988ء کے شہداء کی تصویر یا تصویریں نہیں ہیں۔ ان میں جنرل ضیاء الحق‘ آرمی چیف اور جنرل اختر عبدالرحمن‘ جائنٹ سروسز کے چیف تھے۔ جنرل ضیاء الحق سے کچھ لوگوں کے سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں مگر کوئی بھی اس حقیقت سے انکاری نہیں ہو سکتا کہ وہ آرمی چیف تھے۔ میاں نوازشریف کو اقتدار کی بلندیوں پر جنرل ضیاء الحق ہی لے گئے۔ انکی شہادت کے بعد ایک عرصہ تک نوازشریف انکے مشن کی تکمیل کا عہد کرتے رہے۔ ضیاء صاحب نے اپنی عمر نوازشریف کو لگنے کی دعا بھی کی تھی۔ وہ شاید پوری بھی ہو گئی۔ میاں صاحب آج اپنی عمر کیساتھ انکی عمر بھی بِتا رہے ہیں۔ عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ جنرل ضیاء نے سمجھایا تو خان صاحب نے فرمانبرداری دکھائی اور ریٹائرمنٹ واپس لے لی۔اسکے بعد ہی 1992ء کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔
٭…٭…٭
کیا مردہ خود بتائیگا کہ گولی کس نے ماری‘ کورٹ دوبارہ پوسٹ مارٹم کی درخواست پر برہم۔
قدرت اللہ شہاب کسی شانتی دیوی کا تذکرہ شہاب نامے میں کر چکے ہیں۔ یہ طے شدہ بات بلکہ یونیورسل ریئلٹی ہے کہ مجرم جتنا بھی شاطر ہو‘چترہو چالاک ہو وہ جرم کا سراغ ضرور چھوڑجاتا ہے۔ بات تحقیق اورتفتیش کرنیوالے اداروں پر آکر مک جاتی ہے۔ جو خود چوری کرائیں‘ وہ خاک مجرم کو پکڑیں گے۔ شانتی دیوی کی روح اس مکان میں آہ و بکا کیا کرتی تھی۔ گویا اپنے قتل اور قاتل کی نشاندہی کر رہی تھی۔ ویسے کئی مردے بول بھی پڑے ہیں۔ ڈاکٹر نے دمِ آخر مریض کو دیکھا‘ نبض پہلی سے دوسری ٹک کرنے یا دھڑکنے میں کئی ثانیے لے رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا یہ مر گیا ہے۔ وارڈ بوائز بیڈ کھینچ کر مردہ خانے لے جانے لگے۔ مردے میں جان عود کر آئی‘ اس نے پوچھا کہاں لے جا رہے ہو‘ وارڈ بوائے نے کہا مردہ خانے۔ مریض جو چند لمحے پہلے مردہ تھا‘ گویا ہوا‘ میں تو زندہ ہوں۔ ایک وارڈ بوائے نے ڈانٹتے ہوئے ترنت جواب دیا‘ تو سیانا ہے یا ڈاکٹر‘ خاموش رہو۔ مریض نے تو چھلانگ لگانی ہی تھی۔ میرعالم کا والد فوت ہو گیا۔ میت پڑی ہے‘ روایتی طور پر پوچھا گیا۔ کسی کا لینا دینا ہے تو بتا دے۔ بڑے میر عالم کئی کے مقروض تھے۔ میرے اتنے‘ میرے اتنے‘ کئی زبانیں ایک ساتھ چلنے لگیں۔ مرحوم و مغفور کے بڑے صاحبزادے نے کھیسے میں ہاتھ ڈالا‘ ہاتھ وہیں رکھتے ہوئے کہا‘ آپ سب پر اعتبار ہے‘ مگر تصدیق لازم ہے۔ والد محترم زندہ ہو کر کہہ دیں کس کے کتنے پیسے دینے ہیں وہ میں الٰہی مہر ادا کر دوں گا۔ 
٭…٭…٭
دھرج سنگھ کے گھر سے 12 ارب روپے برآمد،نوٹ گننے میں چار دن لگ گئے۔ 
دھیرج جی نے دھیرے دھیرے اتنی دولت اکٹھی کرلی یا یکمشت لمبا ہاتھ مارا۔ دھیرج انڈیا کے ممبر راجیا سبھا  ہیں‘ ہمارے سینیٹروں کی طرح  ارکان راجیا سبھا کو بھی عوامی ووٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کچھ سیاست دان پارٹی کی ضرورت ہوتے ہیں۔ ان کو سینیٹر بنایا جاتا ہے۔ کچھ نوٹ دکھا کر پارٹی کی لیڈر شپ کا موڈ اپنی طرف کرلیتے ہیں۔ دھیرج کو کرپٹ سیاست دان کہا گیا ہے۔ بھارت میں بڑے کرنسی نوٹ تبدیل کردیئے گئے تھے۔ دھیرج کے گھر سے چھوٹے نوٹ برآمد ہوئے یا انہوں نے نوٹ تبدیل ہونے کے بعد کمائی کی۔ یہ نوٹ 176 بیگوں میں تھے۔ پانچ دس روپے کے نوٹ ہوتے تو 12 ارب کم از کم ایک کنٹینر میں ضرور آتے۔ آٹھ ملازمین چار روز تک چالیس مشینوں کے ذریعے نوٹ گنتے رہے۔ گنتی شفٹوں میں نان سٹاپ ہوتی رہی۔ یہ لوگ شاید انہی نوٹوں سے چائے روٹی بھی منگواتے رہے۔ بھارت میں ایسے کتنے سیاست دان ہونگے۔
بھارت کو چھوڑیں وطن عزیز کی بات کریں‘ جس میں بہت سے سیاست دان اور بیوروکریٹ دھن کو دھیرج کی طرح عزیز ازجان سمجھتے ہیں۔ کئی سرکاری ملازمین کے گھروں کی پانی کی ٹینکیوں سے اربوں کی کرنسی برآمد ہوئی۔ کرنسی آج پلاسٹک کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ ڈیجیٹل بھی ہوگی۔ اگر مائع ہو جائے تو ٹوٹیوں سے برسا کرے۔ دھن کو کہاں کہاں چھپا لیا جاتا ہے۔ کالا دھن کبھی کبھی مٹی میں مٹی ہو جاتا ہے۔ سفید کرنے کیلئے حکومت بڑے کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کا حکم دے تو بنک بھر جائیں گے۔ لوگوں کے پاس اتنا سرمایہ ہے۔ جمع کرانے کیلئے چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ وہ بھی اگر بنک نان سٹاپ کام کریں۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن