انسانی حقوق کیا ہیں؟
کسی بھی معاشرے میں بنیادی انسانی حقوق کیا ہیں؟ اس کا ہمیں پتا ہونا چاہیے۔ جب تک ہمیں یہ معلوم نہیں ہو گاکہ قانون نے کیا انسانی حقوق متعین کیے ہیں ، ہم کسی طرح بھی ان کا تحفظ کر سکتے ہیں نہ انھیں حاصل کر سکتے ہیں۔ معاشرہ کوئی بھی ہو انسانی اقدار کا اس کی معاشرت کے مطابق تعین کیا جاتا ہے۔ قوانین بھی اس لیے بنا دیے گئے ہیں کہ ان حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ بنیادی انسانی حقوق وہ حقوق ہیں جو ہمارے پاس اس لیے ہیں کہ ہم بطور انسان دنیا میں موجود ہیں۔ وہ کسی ریاست اور حکومت کی طرف سے نہیں دیے گئے ہیں بلکہ یہ آفاقی ہیں جو ہم سب کے لیے موروثی ہیں۔ قومیت، جنس،مذہب، رنگ، نسل، زبان یا کسی اور حیثیت سے بالاتر ہیں۔ انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک جو بنیادی حقوق ہیں۔ ہر شخص ان حقوق کا حقدار ہے۔ چاہے وہ کسی بھی ملک، شہر یا قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ ایک مغربی فلسفی کے بقول انسانی حقوق، معاشرتی حقوق کے نہایت ضروری لوازمات ہیں جن کے بغیر کوئی بھی انسان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا سکتا۔ ایک اور مفکر کا کہنا ہے ایک متوازن زندگی کے قیام اور انسان کی تکمیل کے لیے انسانی بنیادی حقوق ضروری لوازمات کا درجہ رکھتے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کو کسی شخص تک پہنچنے میں رکاوٹ بننے کا کسی کو بھی کوئی حق حاصل نہیں۔
باضابطہ انسانی حقوق کے نظریہ کی بات کی جائے تو اس کے متعلق بہت سی جگہ اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کا باضابطہ آغاز یونان سے ہوا۔ بعدازاں اقوام متحدہ کے منشور میں بھی بنیادی انسانی حقوق کو شامل کیا گیا اور منظوری دی گئی۔ اسلامی تعلیمات میں بھی انسانی حقوق کی ادائیگی سے متعلق، مفصل احکامات ہیں۔ انسان دنیا میں آتا ہے تو ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے جہاں وہ اپنی ضروریات، حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ ارتقائی انسانی حقوق کو ثابت کرنے کے لیے کسی تحریری منشور کی ضرورت نہیں بلکہ انسان کی روایات، رسم و رواج اور ثقافت بیان کرتے ہیں کہ انسان کی ابتدائی تاریخ سے ہی اسے تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ماضی میں اکثر یہ حقوق کسی نہ کسی صورت میں پامال ہوتے رہے ہیں۔ جیسے مشہور فلسفی جین جیکسن رومو کہتا ہے کہ انسان آزاد پیداہوا ہے مگر وہ آج ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے۔ سیموئیل موٹن کہتا ہے کہ انسانی حقوق کا تصور شہریت کے جدید احساس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ قبل از دورِ جدید اس سے متعلق کئی مثالیں موجود ہیں۔ البتہ قدیم لوگوں کے پاس آفاقی انسانی حقوق کا جدید دور کی طرح کا کوئی تصور نہیں تھا۔
اسلام حقوق العباد کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے جس میں تعمیل حقوق العباد کے سلسلے میں ایک وسیع نظام متعارف کرایا گیا ہے جسے میثاقِ مدینہ کہتے ہیں۔ جہاں مسلمانوں کے آپس کے معاملات سے لے کر غیر مسلموں کے بھی حقوق واضح کیے گئے ہیں۔ رشتہ داروں، ہمسائیوں، یتیموں، بیوائوں، یہاں تک کے جنگی قیدیوں کہ بھی بنیادی حقوق کی پاسداری دین اسلام کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے خطبہ میں بھی حقوق العباد کی مفصل ہدایات و احکام موجود ہیں۔ اسلام حقوق العباد پر اتنا زور دیتا ہے کہ حقو ق اللہ کی ادائیگی کے لیے اولین حقوق العباد کو قرار دیا گیا ہے۔ دورِ جدید کی بات کی جائے تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10دسمبر 1948ء میں انسانی حقوق کا منشور منظور کرتے ہوئے کہا کہ ہر انسان کی حرمت، آزادی اور مساوات کو تسلیم کرنا انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔ یہ پہلا تحریری منشور تھا جس کو پوری دنیا میں لاگو کیا گیا۔ منشور میں زندگی کی بقاء، آزادی، مساوات، سب کے لیے یکساں قانون، انسانی حرمت، تعلیم اور اظہار آزادی رائے شامل ہیں۔ کسی کو اذیت دینا، ظلم کرنا، غیر انسانی سلوک کرنا، قید بے جا میں رکھنا اور جلاوطن کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے جبکہ منشور میں ریاست کو انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی نے 1973ء میں اسلامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو سامنے رکھتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق مرتب کر کے اسے پورے پاکستان میں لاگو کیا ۔ آئین پاکستا ن کے آرٹیکل 8سے آرٹیکل 28انسانی حقوق سے متعلق ہیں۔ آرٹیکل 8کہتا ہے ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا جو انسانی حقوق کے منافی ہو۔ ہر شہری کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آرٹیکل 9اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کے حقِ زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹیکل 10میں درج ہے کہ اگر کوئی ملزم بھی ہو، تب بھی اسے ضروری تحفظ دیا جائے گا۔ آرٹیکل 11بیگار کی تمام صورتوں سے منع کرتا ہے۔ انسانی خرید وفروخت کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ 14سال سے کم عمر کی ملازمت یا مزدوری سے منع کرتا ہے۔ آرٹیکل 14گھر کی حرمت اور خلوت کی ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل 16ہر شہری کو ملک میں نقل و حرکت اور ملک کے کسی بھی حصے میں آباد ہونے کا حق دیتا ہے۔ آرٹیکل 18جائز تجارت اور کاروبار کی اجاز ت دیتا ہے۔ آرٹیکل 24کے تحت کسی کو بھی اس کی پراپرٹی سے بیدخل یا محروم کرنے کی اجازت نہیں۔ آرٹیکل 25کہتا ہے سب قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ آرٹیکل 27ملازمتوں میں امتیاز کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ آرٹیکل 28ہر شہری کو اپنے رسم و رواج ، زبان اور ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے۔ کوئی اس میںمداخلت نہیں کر سکتا۔
ان آرٹیکلز میں تفویض کیے گئے حقوق کا تعلق ہم سب سے ہے۔ اگر کہیں ان آرٹیکلز کی خلاف ورزی ہو، انسانی حقوق متاثر ہو رہے ہوں تو متاثرہ شخص مقامی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ لیکن ایسا کم ہوا ہے کہ کسی کو متعلقہ آرٹیکلز کے تحت جلد انصاف ملا ہو، چونکہ انسانی حقوق کو قانون کی زبان میں سول میٹر کہا گیا ہے اس لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزی فوجداری ایکٹ کے زمرے میں نہیں آتی۔ سول مقدمات، لمبے عرصہ تک چلتے ہیں اور ان کے ذریعے انصاف کی فراہمی بھی جان جوکھوں والا طویل عمل بن جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فوجداری مقدمات کی طرح سول مقدمات کا ٹرائل بھی سپیڈی ہو تاکہ لوگوں کو جلد اور سستا انصاف مل سکے۔ سول مقدمات کا ٹرائل طویل ہونے کے باعث لوگوں کی اکثریت حقوق کی پامالی کے باوجود قانون سے رجوع نہیں کرتی۔ اس لیے وہ فراہمیِ انصاف سے محروم رہ جاتی ہے۔ سول مقدمات کا ٹرائل بھی سپیڈی ہو۔ لوگوں کو جلد انصاف ملنے لگے تو شاید انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کا سلسلہ بھی رک جائے۔ معاشرتی اصلاحات اور ترجیحات میں بہتری آ جائے اس لیے ضروری ہے کہ ہماری نئی منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کے ارکان انسانی حقوق کے آرٹیکلز پر بھرپور توجہ دیں ، غور و فکر کریں کہ کس طرح انسانی حقوق کے ان آرٹیکلز کو فوجداری کی طرح سپیڈی ٹرائل کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے۔
کسی بھی انسان کی عزت اور احترام معاشرتی بقاء کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ کمزور انسانوں کے ساتھ برا سلوک اور توہین آمیز رویہ اب عام سی بات ہو گئی ہے، دوسروں کی عزت نفس کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا، اس کے لیے سخت قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ دوسروں کی عزت نفس کو مجروح کرنے والے محتاط رہیں۔ اس بُرے عمل اور رویے سے پرہیز کریں۔ ہمارے نصاب میں بھی انسانی حقوق کے آرٹیکلز کا شامل ہونا بے حد ضروری ہے تاکہ ہائی سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر یہ تمام آرٹیکلز پڑھائے جائیں جس سے پتہ چلے کہ کسی بھی شہری کے انسانی حقوق کیا ہیں اور اگر کہیں ان ’حقوق‘ کی خلاف ورزی ہو رہی ہو تو حصول انصاف کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ٹی وی ٹاک شوز میں سیاسی موضوعات پر بہت بات ہوتی ہے لیکن انسانی حقوق پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔ اس حوالے سے بھی پروگرام ہونے چاہئیں۔