غیرقانونی مقیم تارکین کو پہلے جیل ہونی چاہیے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے غیر قانونی افغانوں کی وطن واپسی کے خلاف درخواست پر سماعت کے لیے معاملہ لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھجوا دیا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے غیر قانونی افغانوں کی وطن واپسی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزاروں نے آرٹیکل 224 کے تحت نگراں حکومت کے اختیارات پر سوال اٹھایا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آئین کی تشریح کے لیے معاملات لارجر بینچ میں جانے چاہئیں۔ افغان باشندوں کی بے دخلی کیس میں آرٹیکل 9، 10 اور 24 سمیت بنیادی حقوق کی تشریح درکار ہے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آئینی تشریح کا معاملہ لارجر بینچ سن سکتا ہے اس لیے کیس لارجربینچ کی تشکیل کے لیے ججزکمیٹی کو بھیجا جاتا ہے۔ حکومت تو صرف ان لوگوں کو واپس بھیج رہی ہے جو غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔درخواست گزار کے وکیل سمیع الدین نے کہا کہ قانونی دستاویزات نہ بھی ہوں تب بھی بنیادی حقوق کو مد نظر رکھنا لازم ہے۔جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ غیر ملکیوں کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں تب بھی ان کو انسانی حقوق کے تحت ملک میں رہنے دیا جائے؟وکیل درخواست گزار نے کہا کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے ساتھ قانون اور آئین پاکستان کے مطابق سلوک ہونا چاہیئے۔جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس میں کہا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق تو غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پہلے جیل ہونی چاہیئے، کیا یہ چاہتے ہیں کہ ان غیر ملکیوں کو پہلے جیل ہو پھر بے دخل کیا جائے؟ حکومت کے مطابق 90 فیصد غیر قانونی مقیم غیر ملکی رضاکارانہ طور پر واپس جا رہے ہیں، کیا پاکستان میں کوئی جاسوس آ کر بیٹھ جائے اور دو سال بعد کہے کہ اسے گرفتار نہ کیا جائے تو پھر کیا ہوگا؟ وکیل درخواست گزار نے دلائل میں کہا کہ کلبھوشن جادیو کا کیس ہو چکا اورغیر ملکیوں سے متعلق پاکستان بین الاقوامی قوانین کا رکن ملک ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس آئینی تشریح کا ہے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد لارجر بینچ کو سننا چاہیے۔