سٹاک مارکیٹ مندی کا شکار
پاکستان سٹاک مارکیٹ بدھ کو 67 ہزار پوائنٹس کی بلند سطح کو چھونے کے بعد مندی کا شکار ہوگئی جس کی وجہ سے مارکیٹ66ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حد سے گرگئی۔ کاروباری مندی سے مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے 1کھرب 75ارب روپے سے زائد ڈوب گئے جس کی وجہ سے مارکیٹ کا مجموعی سرمایہ 95کھرب روپے سے گھٹ کر93کھرب روپے کی کم سطح پر آگیا جبکہ 73.78 فیصد حصص کی قیمتیں بھی گھٹ گئیں۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ میں ابتدائی سیشن کے دوران تیزی رونما ہوئی لیکن یہ تیزی کاروبار ی وقت کے گزرتے ہی عارضی ثابت ہوئی۔ سرمایہ کاروں نے منافع کی خاطر پرافٹ ٹیکنگ کو ترجیح دی جس نے مارکیٹ کا تنزلی سے دوچار کردیا۔ یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے سے جاری ہے کہ کبھی سٹاک مارکیٹ میں تیزی آ جاتی ہے اور پوائنٹس اوپر جانے لگتے ہیں تو کبھی وہ مندی کا شکار ہو جاتی ہے، ایک عام شہری بھی اس صورتحال سے یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں ہونے والا یہ سارا کاروبار مصنوعی بنیادوں پر چل رہا ہے اور اس کا ملک کی مجموعی معاشی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ویسے بھی جب تک ملک کی معیشت باقاعدہ طور پر مستحکم نہ ہو اس وقت تک سٹاک مارکیٹ کے پوائنٹس اوپر یا نیچے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور معیشت کو مستحکم بنانے کی ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جنھیں اقتدار کے ایوانوں میں بٹھایا گیا ہے۔ نگران وفاقی کابینہ میں شامل تمام ارکان بھی سابق وزراء کی طرح کہیں تو عوام کا دل بہلانے کے لیے اعداد و شمار کی جادوگریاں دکھاتے نظر آتے ہیں اور کہیں وہ عوام کو صاف کہہ دیتے ہیں کہ ملک کے وسائل اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ سبسڈی دی جاسکے یا مہنگائی پر قابو پایا جاسکے۔ لیکن کسی بھی حکومت نے یہ کوشش کبھی بھی نہیں کی کہ اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی مراعات و سہولیات پر بھی کوئی قدغن لگائی جائے اور اس ملکِ خداداد کے تمام مسائل کا حل اسی ایک کلیے میں مضمر ہے کہ اشرافیہ جو لوٹ مار پون صدی سے کررہی ہے اسے کسی بھی طرح روکا جائے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جب تک یہ لوٹ مار نہیں روکی جاتی تب تک ملک کی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی۔