• news

سپریم کورٹ بنچ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ عدالتوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت گزشتہ روز عدالت عظمیٰ کے مسٹر جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں چھ رکنی بنچ کے روبرو ہوئی۔ دوران سماعت جسٹس طارق مسعود نے خود کو بنچ سے الگ کرنے سے معذرت کی اور جسٹس جواد ایس خواجہ کے فیصلہ پر انحصار کرتے ہوئے بنچ میں اپنی شمولیت پر اعتراض 
ختم کردیا۔ اس حوالے سے فاضل جج اور سردار لطیف خان کھوسہ کے مابین تلخ الفاظ کا تبادلہ بھی ہوا۔ فاضل جج نے اس حوالے سے بیرسٹر اعتزاز احسن کا اعتراض بھی مسترد کر دیا اور اپنی سربراہی میں بنچ کی کارروائی جاری رکھتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کردیا۔ فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ پانچ رکنی بنچ نے آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیرآئینی قرار دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بنچ نے ایف بی علی کیس میں آرمی ایکٹ کی ان شقوں کو برقرار رکھا تھا اور عدالت عظمیٰ کی 17 رکنی فل کورٹ نے بھی آٹھ رکنی بنچ کے فیصلہ کی توثیق کی تھی۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کل کو جو دہشت گردی کے حملہ میں جوان شہید ہوئے ہیں تو اس دہشت گردی میں ملوث سویلینز کیخلاف کیس کون سنے گا۔ فاضل بنچ نے اس تناظر میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ کیخلاف وفاقی حکومت کی دائر کردہ اپیل باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ پر عملدرآمد روک دیا اور فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ فاضل عدالت نے قرار دیا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مشروط ہو گا۔ بنچ کی فاضل رکن جسٹس مسرت ہلالی نے بنچ کے دیگر پانچ فاضل ارکان کے فیصلہ سے اختلاف کیا اور اپنا اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ 
بے شک آئین پاکستان میں سول اور فوجی عدالتوں کے پیرامیٹرز متعین ہیں تاہم ملک جب سے بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہے بالخصوص 16 دسمبر 2014ء  کے سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کیلئے تمام قومی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے باہم مشاورت کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا تو اس میں دہشت گردوں کیخلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے گنجائش نکالی گئی۔ چنانچہ فوجی عدالتوں کی تشکیل پر تمام  قومی سیاسی قیادتوں نے اتفاق کیا اور ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ اس اس کا مقصد کسی متوازی نظام عدل کی تشکیل ہرگز نہیں تھا بلکہ دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کیلئے ہنگامی ضرورت کے تحت یہ راستہ نکالا گیا جو عبوری مدت کیلئے تھا اور تمام سٹیک ہولڈرز کو قابل قبول بھی ہوا۔ 
اسی تناظر میں 9 مئی کو ایک سیاسی جماعت کی جانب سے لاہور‘ راولپنڈی‘ پشاور اور دوسرے شہروں میں پاک فوج کی عمارتوں اور تنصیبات پر حملے کئے گئے‘ لاہور کا کور کمانڈر ہائوس خاکستر کیا گیا اور قومی ہیروز کے مجسمے اکھاڑ کر ان کی توہین کی گئی تو ان واقعات میں ملوث افراد کیخلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرکے فوجی تنصیبات اور عمارتوں پر حملوں میں ملوث ملزمان کیخلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا جو سول اور عسکری قیادتوں کے اتفاق رائے سے ہوا اور اس کیلئے آرمی ایکٹ میں دسمبر 2014ء کی طرح پھر ترمیم کرکے فوجی عدالتوں کی تشکیل کی گنجائش نکالی گئی۔ جب ان عدالتوں میں متعلقہ ملزمان کیخلاف مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی قائد کی جانب سے اس کیخلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی گئی اور فاضل عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے اکثریت رائے کے ساتھ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی شق غیرآئینی اور کالعدم قرار دے دی چنانچہ فوجی عدالتوں میں ان مقدمات کی سماعت رک گئی اور یہ مقدمات انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کو منتقل کر دیئے گئے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے اس فیصلہ کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے چیلنج کیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ فوجی اداروں‘ انکی عمارات اور تنصیبات پر حملوں میں ملوث ملزمان کسی رورعایت کے مستحق نہیں اور ان کیخلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں ہی سماعت کے  متقاضی ہیں تاکہ سپیڈی ٹرائل کے ذریعے وہ اپنے قبیح جرائم پر کیفر کردار کو پہنچ سکیں اور اس بنیاد پر دیگر ملزمان کو بھی عبرت حاصل ہو۔ 
یہ امر واقع ہے کہ ملک اور قوم کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلانے کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز ایک عزم کے ساتھ سرگرم عمل ہیں، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے دفاع وطن کے تقاضے نبھا رہی ہیں اور دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کی ذمہ داریاں بھی پوری کر رہی ہیں۔ انکے اس عزم اور قربانیوں کے نتیجہ میں ہی ملک میں مستقل قیام امن کے راستے ہموار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس تناظر میں اگر دہشت گرد عناصر کسی جماعت کے شیلٹر میں ملک میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتے ہیں اور فوجی اداروں اور انکی عمارات و تنصیبات کو بھی نشانہ بناتے ہیں تو انہیں انکے جرائم کی مناسبت سے فی الفور کیفرکردار کو نہ پہنچائے جانے سے جہاں حکومتی ریاستی اتھارٹی کے کمزور ہونے کا عندیہ ملے گا وہیں دہشت گردوں کے حوصلے مزید بلند ہونگے۔ اگر سول عدالتوں میں دہشت گردوں کیخلاف مقدمات کے بروقت فیصلے ہو رہے ہوتے اور عدالتیں بلاخوف و رعایت جرائم کی نوعیت کے مطابق انصاف فراہم کر رہی ہوتیں تو ان مقدمات کی سماعت کیلئے فوجی عدالتیں قائم کرکے عساکر پاکستان پر اضافی بوجھ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی۔ چونکہ سول عدالتوں میں اس نوعیت کے مقدمات بھی التواء کا شکار ہوتے رہے ہیں اور دہشت گردوں کی دھمکیوں پر سول عدالتوں کے ارکان کو اپنی زندگیوں کے تحفظ کی فکر بھی لاحق ہوتی رہی اس لئے معروضی حالات میں فوجی تنصیبات اور عمارتوں پر حملوں میں ملوث دہشت گردوں کیخلاف مقدمات کی سماعت کیلئے فوجی عدالتیں ہی مناسب فورم تھا جس پر پوری قوم کی جانب سے اتفاق رائے کا اظہار بھی ہوا۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ میں بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے اختلاف رائے سامنے آتا رہا اور فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف فیصلہ تین دو کی اکثریت سے صادر ہوا۔ اب عدالت عظمیٰ کے چھ رکنی بنچ کے روبرو وفاقی حکومت کی اپیل کی سماعت کے دوران بنچ کے فاضل سربراہ کی جانب سے بجا طور پر ایف بی علی کیس کا حوالہ دیا گیا جس میں عدالت عظمیٰ کے آٹھ رکنی بنچ نے اور پھر فل کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلیز کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔ ابھی چھ رکنی فاضل بنچ کے روبرو اس کیس کی مزید سماعت ہونی ہے تاہم فاضل بنچ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت بادی النظر میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ کے فیصلہ کی ہی توثیق ہے اور ملک کے معروضی حالات اس امر کے ہی متقاضی ہیں کہ فوجی اداروں‘ انکی عمارتوں اور تنصیبات پر حملے کرنیوالے دہشت گردوں کو بروقت کیفر کردار کو پہنچایا جائے تاکہ اس قبیل کے تمام ملزمان کو عبرت حاصل ہو سکے۔

ای پیپر-دی نیشن