کیا بھارت اور افغانستان مشترکہ طور پر پاکستان کے درپے ہیں ؟
برطانوی ہند کی 1947 ء میں تقسیم اور پاکستان کے قیام پر نومولود پاکستان کے مغرب میں برادر اسلامی ملک افغانستان کی اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت ایک ایسا المیہ تھا جو75 برس گزر جانے کے باوجود پاکستان کیلئے آج بھی مسائل کا سبب ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 2430 کلو میٹر طویل سرحد اس قدر پیچیدہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان کے لیے افغانستان سے آزادانہ آمد و رفت کو روکنا مشکل بنا ہوا ہے۔ پاکستان کو افغان سرحد پر خاردار باڑ کی تنصیب ہرگز نہ کرنی پڑتی اگر یہ سرحد پاکستان میں دہشت گردی کا طوفان برپا کرنے کے لئے بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی آسان آمدورفت کا سبب نہ بنتی۔یہ دہشت گردی گزشتہ دو دہائیوں میں 80ہزار سے زیادہ پاکستانیوںکی جان لے چکی ہے جس میں پاک فوج کے افسران و جوانوں سمیت مرد و خواتین اور معصوم بجوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ پاک افغان سرحد پر نظر ڈالیں تو پشتون آبادیوں پر مشتمل افغان صوبے بدخشاں، نورستان، کنٹر، ننگرہار، پکتیا، خوست، پکتیکا، زابل، کندھار، ہلمند اور نمروز اس انداز سے پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کہ ان صوبوں میں بسنے والے بہت سے قبائل سرحد کے ساتھ پاکستان میں بھی آباد ہیں۔ جو خاردار باڑ کی تنصیب سے قبل بلا خوف و خطر ایک دوسروں کے علاقوں میں آمد و رفت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ افغانستان سے مخالفت کی طرح پاکستان سے گندم و دیگر زرعی اجناس کی افغانستان سمگلنگ بھی تقسیم ہند کے وقت سے پاکستان کو ورثے میں ملی۔ اسی طرح غیر ملکی ساختہ اشیاء کی بغیر کسٹم و ٹیکس ادائیگی براستہ افغانستان پاکستان میں سمگلنگ کاسلسلہ بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ اس سمگلنگ سے پاکستانی معیشت کو پہنچنے والا نقصان کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔بہرحال یہ سب تاریخی حقائق ہیں جوتلخ بھی ہیں اور پاکستانی عوام کیلئے تکلیف دہ بھی ہیںتاہم 1979 ء میں سویت یونین کی افغانستان پر فوج کشی نے اس وقت بہت کچھ بدل کے رکھ دیاجب افغانستان اور بھارت کے خفیہ اداروں نے مل کر پاکستان کیخلاف جدید طرز کی گوریلہ جنگ کا آغاز کیا۔
سویت افواج کے ناجائز قبضہ کے خلاف افغانستان کے اندر سے پھوٹ پڑنیو الی مزاحمت کی پاکستان کی طرف سے حمایت فطری بات تھی۔ سرحد کے دونوں طرف آباد مشرکہ قبائل کے ہوتے ہوئے پاکستان سویت یونین کی افغانستان میں جارحیت سے چاہتا بھی تو الگ تھلگ نہیں رہ سکتا تھا۔ کیونکہ رشتے داریوں کے علاوہ اسلامی بھائی چارے اور ہزار سال کی مشترکہ تہذیب اور روایت کی بدولت پاکستان آنے والے افغان مہاجرین کو روکنا پاکستان کے لیے ممکن تھا۔ ان افغان مہاجرین میں وہ افغان عناصر بھی شامل تھے ماضی میں پاکستان مخالف افغان حکومتوں کا حصہ رہے اوران افغان حکومتوں کے ماسکو سے دوستانہ مراسم کے دور میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور سرحد (خیبر پختونخواہ) میں کبھی مسلح مداخلت تو کبھی بدامنی کا سبب بنتے رہے۔ آزاد بلوچستان کیلئے برپا کی گئی بغاوتیں ہوں یا گریٹر پختونستان کیلئے کی جانے والی سازشیں۔ یہ سب 1979ء سے قبل بھارت ، افغانستان ، سویت یونین کے باہمی گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھیں، علاوہ ا زیں افغانستان میں سویت افواج کے خلاف افغان مزاحمت کاروں کو بھی اسی گٹھ جوڑ کا سامنا تھا۔ جنہیں پاکستان کے اندر سے چند قوم پرست بلوچ و پختون سیاست دانوں کی حمایت حاصل رہی۔ 1947ء سے 1979ء تک کا عرصہ بظاہر اب ایک گزری ہوئی تاریخ ہے لیکن اس عرصہ میں موجودہ صورت حال کی طرح بھارت افغانستان کی خارجہ پالیسی پر پوری طرح حاوی رہا۔آج ہم براستہ افغانستان گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان پر مسلط کی گئی دہشت گردی کی جنگ کا ذکر کرتے ہیں توبھول جاتے ہیں کہ خود کش دھماکوں اور حالیہ بھیانک دہشت گردی کے واقعات سے قبل بھی پاکستان میں ریموٹ کنٹرول اور ٹائم بم دھماکوں کے ذریعے پاکستان کے معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہی ہے۔ جب پشاور کے قصہ خوانی بازار سے لے کر کراچی کے بوری بازار تک پاکستان کا کوئی شہر اس طرح کے دھماکوں سے محفوظ نہیں تھا۔ کراچی میں 14 جولائی 1987ء کوٹائم بم کے ذریعے بوری بازار میں کیا جانے والا دھماکا آج بھی پاکستانی قوم کے ذہنوں پر نقش ہے۔ یہی دور تھا جب بھارت سے آئے ہوئے بہت سے ایجنٹ پاکستان میں بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ انہوں نے عدالتوں میں اپنے گھنائونے جرائم کا اعتراف کیا مگر بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوششوں میں ہمارے حکمرانوں انہیں رہاکردیا۔
اور اب حال میں ایشیاء پیسفک فورم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ نے ایک بارپھر پاکستان کے خلاف بھارت اورافغانستان کے باہمی اتحاد کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے ماضی کے اس دور کی یادتازہ کردی ہے جب پاکستان کے مختلف شہروں میں کبھی ریلوے اسٹیشن ، کبھی بس اڈے تو کبھی شہروںکے پُر رونق علاقوں میں بم دھماکے ہواکرتے تھے۔ ایشیاء پیسفک فورم کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 23 دہشت گرد تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ ان میں بیشتر صرف پاکستان کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ جولائی 2020ء کو اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں بھی افغانستان میںپناہ لیے ہوئے 6ہزار دہشت گردوں کا ذکر تھا۔ جس میں جماعت الاحرار ، ٹی ٹی پی ، القاعدہ ، داعش، جنداللہ ااور بلوچ دہشت گردوں کی تفصیل بیان کی گئی تھی کہ یہ سب پاکستان میں دہشت گردی کی مختلف کاروائیوں میںملوث ہیں۔
٭…٭…٭