• news

شوکت صدیقی کیس، فیض حمید دیگر کو نوٹس، الزامات کے نتائج سنگین ہونگے: چیف جسٹس

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو نوٹس جاری کردیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے ہیں، ان کے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔ سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ، یوٹیوب پر براہ راست نشر کی گئی۔ چیف جسٹس نے شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ جن الزامات پر آپ کو عہدے سے ہٹایا گیا کیا وہ درست ہیں، آپ کی درخواست آئین کے آرٹیکل 184تھری کے تحت ہے۔ اپنی درخواست پڑھیں، اگر الزمات درست ہیں تو جن لوگوں کو آپ پارٹی بنانا چاہتے ہیں ان کو کیا ملے گا، آپ کا الزام ہے کہ وہ کسی اور کیلئے سہولت کار بن رہے تھے، ایک شخص کو نقصان پہنچایا گیا اور دوسرے کو فائدہ، یہ آپ کی تقریر ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جس کیلئے وہ سہولت کار بن رہے تھے وہ کون تھا، آپ آئین کے آرٹیکل 184 تھری میں داخل ہوگئے ہیں، اگر آپ کے الزامات درست ہیں تو آپ نے ملکی آئین کیخلاف کارروائی شروع کردی، آپ نے لوگوں کی پیٹھ پیچھے الزامات لگائے، اور اگر وہ لوگ آئین کی پاسداری نہیں کررہے تھے تو اور لوگ بھی جال میں پھنس جائیں گے، آپ کہہ رہے ہیں کہ متواتر وقت پر الیکشن سے بھارت آگے نکل گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کسی کو نااہل رکھا جائے تو کسی کو فائدہ بھی تو ہوگا، آرٹیکل 184 تھری میں یہ کیس آپ ہمارے پاس لائے ہیں، یہ بہت سنجیدہ بات ہے لیکن آپ اس کو سنجیدہ نہیں لے رہے، آپ نے بھی کئی بار الیکشن میں حصہ لیا، ہم اپنے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی بات کرلیتے ہیں، ایک شخص کو باہر اسی لیے رکھا جاتا ہے تاکہ پسندیدہ امیدوار جیت جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو نہیں بلایا، آپ خود یہاں آئے ہیں اب مرضی ہماری چلے گی، ایسا نہیں ہوسکتا آپ فرد واحد کا کیس لے آئیں اور باقی کسی کا نہ دیکھیں، جب ہمارے پاس آئین ہے تو ہم اس کے مطابق چلیں گے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہمیں کہا جائے یہ کردیں یا وہ کردیں، اگر آپ نے یہ کیا تو آئین، عدلیہ اور جمہوریت پر بہت بڑا حملہ ہوگا، اس کا ہم پھر نوٹس لیں گے، اور حتمی جگہ پر پہنچائیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرا سوال ہے فوج آزاد ادارہ ہے یا حکومت کے ماتحت ہے، حکومت کا سربراہ کون ہوتا ہے۔ جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صدر کے اختیارات بہت کم ہیں وہ خود وزیراعظم کی ایڈوائس پر چلتے ہیں۔ وفاقی حکومت اور کابینہ ایک شخص نہیں ہے جب ہمارے پاس آئین ہے تو ہم اس کے مطابق چلیں گے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ آئین کے تحت فوج کا ادارہ حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یا تو آپ یہ کہہ دیں کہ آپ کو ایک شخص سے ہمدردی ہے، آپ ہمیں نہ بتائیں کہ ہم کیا کریں گے، آپ ہماری مدد اور معاونت کریں، آگے کیا کرنا ہے وہ ہم کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کا نام لکھا جائے تو اس کو نوٹس ہونا لازمی ہے، بلاوجہ نوٹس نہیں ہونا چاہیے، اب جب سوالات اٹھ رہے ہیں تو آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا آپ کا مؤقف کیا ہے، آپ ہمیں یہ حکم نہیں دے سکتے کہ آپ ایسے چلیں یا ویسے، آپ اپنا مسئلہ بتائیں آپ چاہتے کیا ہیں، جمہوریت چاہتے ہیں، آئین پر عمل چاہتے ہیں، بار ایسوسی ایشن کیوں ہمارے سامنے آئی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلاوجہ لوگوں کو تنگ نہیں کرنا چاہتے کہ نوٹسز آئیں، یہ نہیں ہوسکتا آپ دنیا بھر کے نام لکھ دیں اور ہم نوٹسز کر دیں، آپ نے جو سنگین الزامات لگا دیئے ہیں، ان کے سنگین نتائج بھی ہوسکتے ہیں، ہم ایک مقصد کیلئے استعمال نہیں ہوں گے، ہم نہ ایک پارٹی سے استعمال ہوں گے نہ دوسری سے، ہم وہی کام کریں گے جس کی آپ کو شکایت ہے، ایسے تو پھر کل آپ ہم پر الزام لگائیں گے کہ یہ تو استعمال ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ ہمیں مناسب جواب نہیں دیں گے تو پھر کچھ شک پیدا ہوجائے گا، آپ شخصیات پر چل رہے ہیں یا اصولوں پر چلنا چاہتے ہیں، ایسے تو مان لیتے ہیں کہ شوکت صدیقی کی تمام باتیں مفروضے ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ غریب عوام ہمیں بھی تنخواہ دیتے ہیں، جب آپ کوئی بات کریں تو اس کے نتائج سوچ سمجھ کر آیا کریں، ہم ترتیب سے چلیں گے، ہم سسٹم میں شفافیت لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ سسٹم میں کچھ خامیاں ہیں ان کو آہستہ آہستہ دور کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ریفرنس لگتا ہے، تو دوسرا دوسرے دن لگ جاتا ہے، جو ریفرنس 10سال سے نہیں لگا تھا وہ بھی ہم نے لگایا، ہم پرانے کیسز لگا رہے ہیں، یہ باتیں نہیں ہوں گی کہ آپ وہی کام کررہے ہیں جو دوسرے کرچکے۔ اس کیس میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں، آگے بڑھیں گے تو پورے راستے تک جائیں گے، ایسا نہیں ہوگا کہ آپ کہیں ہمارا کام ہوگیا اب ہم گھر جارہے ہیں، ایسے تو پھر آپ ہمیں استعمال کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس اپنی ذات کیلئے کر رہے ہیں یا بار ایسوسی ایشن کیلئے؟۔ آپ ایک شخص کی بات مانیں یا نہ مانیں، آپ نے کہا کچھ فوجی افسران، سابق چیف جسٹس مل کر سازش کر رہے تھے، اس سازش کی کوئی ذہن میں بھی بات ہوتی ناں، جہاز کا ٹکٹ کسی جگہ کیلئے کٹواتے ہیں نہ کہ اس لیے کہ کسی بھی جگہ چلا جاؤں گا، آپ کوئی آئینی سوال نہیں کررہے، یہ آئینی کورٹ ہے آئین کی بات کریں، اور آئین کہتا ہے کہ کسی جج کو ہٹایا نہیں جاسکتا۔ وکیل حامد خان نے اعتراض اٹھایا معاملے کی انکوائری کیوں نہیں کی گئی۔ ہم کہتے ہیں کہ انکوائری میں سب کو موقع ملنا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جو کیا ٹھیک کیا یا غلط، ہم اس پر بات نہیں کریں گے، ہم کسی کی پیٹھ پچھے الزامات نہیں سنیں گے، کل بھی آپ سے پوچھا تھا یا تو آپ آئینی بات کریں یا قانونی، ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں آپ کا مسئلہ ہے کیا۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا، اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم ناقص تفتیش نہیں کرنا چاہتے، ہم مکمل تفتیش کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں تفتیش میں کس کو بلائیں، ہمیں تاریخ نہیں بھولنی چاہیے، پتہ ہونا چاہیے ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ آپ کہتے ہیں لوگ یہاں آلے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، ماضی میں جو ہوتا رہا وہ سب ٹھیک کرنا ہے، آلے کے طور پر استعمال کون کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کوئی ادارہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں، ہم نے آئینی اداروں کو حکم دیا انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری کریں، ملک میں کب اتنی جلدی کیس کا فیصلہ ہوا ہے، الیکشن کی تاریخ سے متعلق کیس کرنے سیاسی جماعت آئی تو 12 روز میں فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کہیں آپ چیزوں کو بالکل بڑھا دیتے ہیں، کہیں آگے بھی نہیں بڑھنا چاہتے، ابھی تک کوئی کڑی قمر باجوہ کے ساتھ نہیں جڑ رہی، ہم بلاوجہ لوگوں کو نوٹسز نہیں دیتے، کل کو آپ ہمارا مذاق نہ بنوائیے گا۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ابھی تک قمر باجوہ کی کوئی ڈائریکٹ بات نہیں کی، ابھی تک جو آپ باتیں کررہے ہیں، اس میں دوسروں کے نام آرہے ہیں، یہ آرٹیکل 184 ہے، لوگوں کو نقصان بھی ہو جاتا ہے، اب آپ ہم سے انصاف لے کر جائیں گے چاہے آپ کو پسند آئے یا نہ آئے، کس سیاسی جماعت کو نکالنے کیلئے یہ سب ہوا۔ وکیل صلاح الدین نے مؤقف پیش کیا کہ جوڈیشل سسٹم پر دباؤ ڈال کر نوازشریف کا نکالا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا، کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کیلئے یہ سب ہوا۔ وکیل صلاح الدین نے کہا کہ ہم نے انکوائری کی درخواست کی تاکہ حقیقت سامنے آئیں۔ بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس میں آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا۔ عدالت نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کو نوٹس جاری کر دیا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی، بریگیڈیئر عرفان رامے، سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے درخواستگزار شوکت صدیقی کو 7روز میں ترمیمی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے کہا کہ 3 افراد جنہیں شوکت عزیز صدیقی نے فریقین بنایا تھا، ان کا براہ راست تعلق نہیں۔ قمر جاوید باجوہ، طاہر وفائی، فیصل مروت کو نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔کیس کی آئندہ سماعت موسم سرما کی تعطیلات کے بعد ہوگی۔

ای پیپر-دی نیشن