قائداعظم کا پاکستان دو لخت ہونے سے پہلے (۱)
معزز قارئین !مجھے یقین ہے کہ آج(16 دسمبر 2023ء ) کو اہلِ پاکستان، خصوصاً قائدین و کارکنان تحریک پاکستان اور اْنکے اہل و عیال 16 دسمبر 1971ء کے ’’ یوم سقوطِ ڈھاکہ ‘‘ یا (Fall of Dhaka) کا منحوس دِن ضرور یاد کر رہے ہوں گے ؟ جب ہمارا ’’ مشرقی پاکستان ‘‘۔ بنگلہ دیش کہلایا۔یاد رہے کہ ’’ 25 مارچ 1969ء سے 20 دسمبر 1971ء تک فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے جانشین فوجی آمر جنرل محمد یحییٰ خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان تھے اورسانحئہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ’’قائد ِ عوام ‘‘ اور ’’ فخرِ ایشیاء ‘‘ کہلانے والے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل محمد یحییٰ خان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بنے تھے۔
مَیں عرض کر چکا ہْوں ’’ قیام پاکستان سے پہلے ، مَیں مشرقی ( اب بھارتی ) پنجاب کی سِکھ ریاست نابھہ میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا ، میری عْمر تقریباً 11 سال تھی، میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان ’’ لٹھ باز‘‘ پہلوان تھے اور وہ ’’ آل انڈیا مسلم لیگ نیشنل گارڈز‘‘ کے مجاہدوں کو لٹھ بازی سکھایا کرتے تھے ، تحریک پاکستان کے دَوران ریاست نابھہ ، پٹیالہ اور ضلع امرتسر میں ہمارے خاندان کے 26 افراد سِکھوں سے لڑتے ہْوئے شہید ہْوئے تھے اور یہ بھی کہ ’’بحیثیت شاعر مَیں نے 1956ء میں پہلی نعت لکھی تھی اور مسلک صحافت اْس وقت اختیار کِیا جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ’’ بی اے فائنل‘‘ کا طالبعلم تھا۔ فی الحال آج مَیں قائداعظم کے پاکستان کے دولخت ہونے سے پہلے اپنا مختصراً تجربہ بیان کر رہا ہوں۔جب مَیں نے ’’سقوطِ ڈھاکہ ‘‘ سے ایک سال اور گیارہ ماہ قبل ، لاہور اور سرگودھا کے روزنامہ ’’ وفاق‘‘ میں جناب مصطفی صادق (مرحوم ) اور ماشاء اللہ بقید ِ حیات برادرم جمیل اطہر قاضی کے ساتھ یکم جنوری 1970ء کو مشرقی پاکستان کا سفر طے کیاتھا۔ اْن دِنوں مرکزی جمعیت عْلماء اسلام کے قائد مولانا احتشام اْلحق تھانوی کا دورۂ مشرقی پاکستان طے تھا اور جنابِ مصطفی صادق کو بھی جانا تھا لیکن ’’ اچانک مصطفی صادق صاحب کے بڑے بیٹے وقار مصطفی کا اپریشن ہْوا اور مصطفی صادق صاحب اور جمیل اطہر صاحب نے مجھے ڈھاکہ روانہ کردِیا۔ لاہور سے ڈھاکہ کا "Return Ticket"۔ 500 روپے کا تھا، اْنہوں نے مجھے 500 روپے نقد بھی دئیے۔ مصطفی صادق صاحب اور جمیل اطہر صاحب مجھے لاہور ائیر پورٹ چھوڑنے گئے، مصطفی صادق صاحب نے مجھے ڈھاکہ "Airport" سے (پنجابیوں کے) راجا ہوٹل کا پتہ بھی سمجھایا۔
’’ ائیر پورٹ سے راجا ہوٹل ! ‘‘
معزز قارئین !اڑھائی بجے رات مَیں ائیر پورٹ سے باہر آیا تو وہاں صرف چار ٹیکسیاں موجود تھیں ، جن کے ڈرائیوروں نے سفید چمڑی والے مہمانوں کو بٹھا لِیا۔ مَیں موٹر سائیکل رکشہ پر سوار ہوگیا ، راستے میں رکشہ ڈرائیور نے مجھے ، میرے سمجھائے ہْوئے سیدھے راستے کے بجائے ، دوسرے راستے پر لے جانے کی کوشش کی اور مجھے کہا کہ ’’ راستے میں ڈاکو ہیں!‘‘۔ مَیں نے اْسے کہا کہ ’’ فکر نہ کرو ! میرے پاس پستول ہے!‘‘۔رکشہ ڈرائیور بولا ! ’’باپ رے پستول‘‘۔ پھر وہ میرے بتائے ہْوئے راستے پر چلنے لگا اور ہاں ! اْس وقت مَیں درود شریف بھی پڑھ رہا تھا۔ مَیں راجا ہوٹل پہنچا تو مَیں نے فوراً وہاں کے منتظمین کو بلایا ، پھر راجا ہوٹل کے مالک مجھے اور رکشہ ڈرائیور کو اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ اْنہوں نے مجھے بتایا کہ ’’ اکثر رکشہ ڈرائیور پنجابی سواریوں کو لوٹ لیتے ہیں !‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ ’’ راجا ہوٹل کے مالک نے رکشہ ڈرائیور کے ساتھ کیا سلوک کِیا ؟۔
’’مولانا صاحب سے ملاقات ! ‘‘
اگلی صبح مَیں طے شدہ مقام پر مولانا احتشام اْلحق تھانوی سے جا ملا ، وہاں کئی مولانا صاحبان اور اْنکے مریدین بھی تھے۔ مولانا امین اْلاسلام نے ( جن کی شکل مولانا کوثر نیازی سے ملتی تھی ) مجھے کہا کہ کل ہم سب لوگ مولانا احتشام اْلحق تھانوی صاحب کے ساتھ بذریعہ طیارہ کومیلا جا رہے ہیں ، آپ کو ہمارا کوئی کارکن بس پر کومیلا لے جائیگا۔ اِس پر مَیں نے مولانا احتشام اْلحق تھانوی صاحب سے کہا کہ ’’ مولانا صاحب!مَیں روزنامہ ’’ وفاق ‘‘ کا سینئر صحافی ہْوں اور مصطفی صادق صاحب نے مجھے آپ کی "Covrege"کیلئے بھجوایا ہے ، آپ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں اور مولانا امین اْلاسلام کو بس پر جانے دیں ، اگر آپ کو میری ضرورت نہیں تو، میرے پاس واپسی کا ٹکٹ ہے اور مَیں آج ہی لاہور واپس چلا جاؤں گا!‘‘۔ مولانا احتشام اْلحق تھانوی مسکرائے اور وہ مجھے بھی اپنے ساتھ طیارے پر لے گئے۔ مَیں نے ڈھاکہ ، کومیلا ، نواکھلی ، چٹا گانگ اور کئی دوسرے شہروں کے جلسہ ہائے عام میں مولانا صاحب کا خطاب سْنا تو مَیں اْنکی علمی قابلیت اور خوش الحانی سے بہت متاثر ہْوا۔ پاکستان کے غریب غْرباء کی ترجمانی کرتے ہْوئے جب مولانا کسی اْستاد شاعر کا یہ شعر خْوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے کہ …
’’ سنبھالا ہوش تو، مرنے لگے حسینوں پر !
ہمیں تو موت ہی آئی ، شباب کے بدلے!‘‘
تو جلسہ ہائے عام میں مولانا صاحب کے حق میں کئی قسم کے نعرے گونجنے لگتے تھے۔ مولانا احتشام اْلحق تھانوی مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب اْلرحمن کی قیادت میں عوامی لیگ کے ’’بنگلہ نیشنل اِزم ‘‘۔ مشرقی پاکستان کے مولانا عبْدالحمید خان بھاشانی کی قیادت میں نیشنل عوامی پارٹی (چین نواز) کے سوشلزم ، مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے سوشلزم اور خان عبدالولی خان اور پروفیسر مظفر احمد کی نیشنل عوامی پارٹی ( روس نواز) پر بہت تنقید کِیا کرتے تھے۔ اْنہی دِنوں بھٹو صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی اور مفتی محمود صاحب (مرحوم) کی ’’جمعیت عْلماء ِاسلام ‘‘ (ہزاروی گروپ) کا اتحاد تھا۔ مفتی محمود صاحب اور اْنکے ساتھیوں کو ’’شاہین بچے‘‘ اور جنابِ بھٹو کو زاغ (کوّا) قرار دے کر مولانا تھانوی جب علاّمہ اقبال کا یہ شعر پڑھاکرتے کہ۔
ہوئی نہ زاغ میں ، پیدا ، بلند پروازی!
خراب کر گئی، شاہیں بچے کو، صحبتِ زاغ!
تو مولانا صاحب کی تعریف و توصیف میں مختلف قسم کے نعرے لگائے جاتے تھے، مولانا احتشام اْلحق تھانوی صاحب کے ’’زاغ یاصحبت ِزاغ ‘‘ کے رموز و کنایات پربھی زور و شور سے نعرے لگتے تھے؟(جاری ہے )