ملک کی سلامتی کیلئے فکر مند ہونے کے متقاضی سقوطِ ڈھاکہ اور اے پی ایس پشاور کے سانحات
سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے 52 سال گزرنے پر آج قوم پہلے سے بھی زیادہ سنگین خطرات میں گھرے پاکستان کو دیکھ کر نمناک آنکھوں اور متفکر سوچوں کے ساتھ ملک کے دولخت ہونے کی یاد تازہ کر رہی ہے اور کفِ افسوس ملتے ہوئے ملک کی قومی سیاسی‘ حکومتی اور عسکری قیادتوں سے ملک کی سلامتی و بقاء کیلئے فکرمند ہونے اور قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا استوار کرنے کی متقاضی ہے۔ آج ہی کے دن 9 سال قبل 16 دسمبر 2014ء کو ہمارے سفاک دشمن بھارت نے ہم پر اوچھا وار کیا اور اپنے تربیت یافتہ ننگ انسانیت دہشت گردوں کے ذریعے آرمی پبلک سکول پشاور کے دوسو کے قریب بے گناہ و معصوم بچوں اور انکے اساتذہ بشمول پرنسپل کو اپنے جنونی انتقامی جذبات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ان معصوموں کے خون سے رقم ہونیوالی ہماری یہ تاریخ انتہائی کربناک اور دل ہلا دینے والی ہے اور گھنائونی بے رحم سازشوں کے مقابل ہمہ وقت الرٹ رہنے کی متقاضی ہے کیونکہ آج یہ مکار دشمن کابل کی عبوری طالبان حکومت کو پاکستان کے خلاف جاری اپنی سازشوں میں شریک کر کے بلوچستان‘ کے پی کے اورشمالی علاقہ جات سمیت ملک کے مختلف حصوں میں گھناؤنی دہشت گردی کے ذریعے سقوط ڈھاکہ پر منتج ہونیوالے مشرقی پاکستان کے حالات جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اسی تناظر میں مودی سرکار نے اپنے ناجائز زیر تسلط کشمیر کو بھارتی پارلیمنٹ کے ذریعے ہڑپ کرنے کے اپنے 5 اگست 2019ء کے اقدام کی بھارتی سپریم کورٹ سے بھی توثیق کرا لی ہے اور مودی پاکستان کی سلامتی خدانخواستہ تاراج کرنے کی اعلانیہ بڑ مارتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح طالبان حکومت کی سہولت کاری کے ساتھ افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والے سفاک دہشت گرد بالخصوص بلوچستان اور خیبر پی کے میں سکیورٹی فورسز کو اپنے ہدف پر رکھ کر دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تین روز قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز کے جاری اپریشن کے دوران کالعدم ٹی ٹی پی سے منسلک دہشت گردوں نے ایک چوکی پر خودکش حملہ کر کے سانحہ اے پی ایس والی اپنی سفاکی کی تاریخ دہرائی اوردو درجن سے زائد جوانوں کو شہید کیا۔ ملک کو درپیش ان سنگین حالات میں ہماری سکیورٹی فورسز اپنی جانوں پر کھیل کر ملک کے دفاع و سلامتی کے تقاضے خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہیں اور ملک کی سیاسی حکومتی اور عسکری قیادتیں باہم یکسو ہو کر نیشنل ایکشن پلان کو ایک نئے جذبے کے ساتھ عملی جامہ پہنا رہی ہیں جس کے لیئے پوری قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
آج سے 52 سال قبل 16 دسمبر کا بدنصیب و سیاہ دن 71ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مکتی باہنی کی گھنائونی سازشوں سے پاکستان کے دولخت ہونے پر منتج ہوا اور ہمیں مشرقی پاکستان میں جنرل اے اے کے نیازی کی زیرکمان پاک فوج کے سرنڈر ہونے اور بھارتی فوجی جرنیل اروڑہ کے آگے ہتھیار ڈالنے کی انتہائی تکلیف دہ ہزیمت بھی اٹھانی پڑی۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جو ملک کی سلامتی کے تحفظ و دفاع کے حوالے سے ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں سے آئندہ ایسی کسی سفاک غلطی کا اعادہ نہ ہونے دینے کا ہمہ وقت متقاضی رہتا ہے۔ بھارت نے اس سانحہ کے ذریعے پاکستان کو دولخت کرکے اسے کمزور کرنے کے مقاصد پورے کئے اور اسی رعونت اور تکبر کے عالم میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو کر مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔
بے شک اس ہزیمت اور شکست خوردگی کے ماحول میں بھی اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے ملک کو ایٹمی قوت سے سرفراز کرنے کی کوششوں کا آغاز کرکے قوم کی مایوسیوں کا ازالہ کیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے جنگی قیدی بنے‘ اس وطن عزیز کے 90 ہزار فوجی جوانوں، افسران اور سویلینز کو اپنی کامیاب سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کے تحت دشمن کے تسلط سے آزاد کرایا اور اسکے زیر قبضہ پاکستان کے علاقے بھی اس سے چھڑوانے کی سرخروئی حاصل کی۔ انکے بعد کی قومی قیادتوں نے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرکے عملی طور پر ملک کا دفاع مضبوط اور ناقابل تسخیر بنایا مگر شروع دن سے ہماری سلامتی کے درپے ہمارا سفاک دشمن بھارت ہماری سلامتی کیخلاف آج پہلے سے بھی زیادہ گھنائونی سازشوں میں مصروف ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو مکتی باہنی کے متشدد رکن ہونے کے ناتے پاکستان اوراسلام دشمنی کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں‘ بلوچستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو پاکستان سے الگ کرنے کی اپنے ذہن میں سمائی سازشوں کا اعلانیہ اظہار کرتے رہتے ہیں اور اس اظہار کا اعادہ انہوں نے گلگت بلتستان کے دو سال قبل کے انتخابات کے موقع پر بھی ان انتخابات کو متنازعہ قرار دلانے کی کوششوں کے ذریعے کیا۔ وہ اپنی ان سازشوں کی بنیاد پر ہی پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردی پھیلا کر اسے انتشار کا شکار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے قائم کردہ اس نیٹ ورک کے ذریعے بھارتی دہشت گردوں کو افغان دھرتی پر تربیت دیکر اور انکی فنڈنگ کرکے افغان سرحد کے راستے پاکستان بھجوایا جاتا ہے جنہیں پاکستان میں بھارتی فنڈنگ پر پلنے والے سہولت کار دستیاب ہوتے ہیں اور ان کی معاونت سے وہ دہشت گردی کیلئے بھارتی متعین کردہ اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
16دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پشاور میں بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کی منظم واردات کی گئی جس کی یاد آج بھی قوم کو خون کے آنسو رلاتی ہے جبکہ بھارت آج مقبوضہ کشمیر میں اور کنٹرول لائن پر پہلے سے بھی زیادہ دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتا نظر آتا ہے۔ پانچ اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اس پر شب خون مارنے کا مودی سرکار کا مقصد بھی درحقیقت پاکستان کی سلامتی پر اوچھاوار کرنے کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانا تھا چنانچہ مقبوضہ وادی کو بھارتی فوجوں کے ہاتھوں محصور ہوئے آج 1593روز گزر چکے ہیں اور اس کیخلاف دنیا بھر میں عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کی جانب سے ہونیوالی مذمتوں اور علاقائی و عالمی امن کے حوالے سے تشویش کے اظہار پر بھی مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی اوراپنے مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہتی ہے۔ اب بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار کے 5 اگست 2019ء کے اقدام کو جائز قرار دے کر اس کی ہٹ دھرمی کو مزید پختہ کر دیا ہے چنانچہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی گذشتہ روز کشمیر پر پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ کشمیر کیلئے ہم تین سو بار جنگ کرنے کو تیار ہیں اور ہماری بھی آسام سے چھتیس گڑھ تک نظر ہے۔ انہوں نے بھارت کو یہ بھی باور کرا دیا کہ پاکستان کی پہلی دفاعی لائن بارہ مولا اور سری نگر میں بیٹھی ہے۔ مکار دشمن کو یقیناً اسی لہجے میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔
بھارتی سازشوں اور خطے میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم سے آج پوری دنیا آگاہ ہے اور مودی سرکار کی جانب سے اپنے جنگی جنون کو عملی قالب میں ڈھالنا بھی بعیداز قیاس نہیں اس لئے آج سانحہ سقوط ڈھاکہ اور سانحہ اے پی ایس کی کربناک یاد کو تازہ کرتے ہوئے ہمیں ملک کی سلامتی کیلئے زیادہ فکرمند ہونا ہے۔ اس کیلئے قومی سیاسی حکومتی اور عسکری قیادتوں کا دفاع وطن کیلئے مکمل یکجہت ہونا اور اس ناطے سے دشمن کو سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینا ضروری ہے۔
بد قسمتی سے آج پھر ہمیں انہی حالات کا سامناہے جو سانحۂ مشرقی پاکستان کا سبب بنے تھے۔ ایک طرف ملک دشمن قوتیں ہماری سلامتی کے درپے ہیں اور دوسری طرف ہمارے بعض عاقبت ناا اندیش سیاستدان اس چنگاری کو ہوادینے کی شعوری یا غیر شعوری کو ششوں میں مگن ہیں جو ملکی یکجہتی کو بھسم کرسکتی ہے۔ یہ کس قدر افسوسناک بلکہ شرم ناک بات ہے کہ بنگلا دیش جوہم سے کٹ کرعلیحدہ وطن کے طورپر سامنے آیا تھا۔ آج پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہوچکاہے۔ اس کی اقتصادیات ہم سے بہت بہتر ہیں۔ بنگلا دیش کی کرنسی کا ریٹ پاکستان کے مقابلے میں دو گنا۔ درآمدات وبرآمدات کا حجم بھی قابل رشک ہے وہ جس تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتاچلاجارہاہے یہ گمان کیا جاسکتاہے کہ مستقبل میں وہ اس خطے کے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں شمارہونے لگے گا۔آج بنگلا دیش ایک پسماندہ ملک سے ترقی پذیر ملک بن چکا ہے۔اسکے برعکس پاکستان کی صورت حال انتہائی پریشان کن ہے۔قرضوں کے دلدل میں دھنسی پاکستانی معیشت اس قدرکمزور ہوچکی ہے کہ ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کی تلوار ہمہ وقت اس کے سر پر لٹکی رہتی ہے۔ ملک ترقی کی شاہراہ پرچلنے کے بجائے تنزلی کی پستیوں کی جانب لڑھکتاچلا جارہاہے۔ ان حالات میں سیاستدانوں کے درمیان شخصی لڑائی اور اختلافات میں فوج جیسے معتبر ادارے کو بھی اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھایاجارہاہے۔ اس پر طعن وتشنیع کی جارہی ہے۔ اور اس کی قیادت کو متنازعہ بناکر دشمن قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ یہ طرز عمل اس حقیقت کی چغلی کھا رہا ہے کہ ہماری اشرافیہ اور سیاسی قیادتوں نے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ ہم انہی راستوں کے مسافربن چکے ہیں جو سقوط ڈھاکہ جیسے سانحات کو جنم دیتے ہیں۔ آج ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اپنے طرزعمل کا جائزہ لیں، ملکی مفاد کی خاطر سارے اختلافات بھلا کر ایک ہوجائیں اور اس ملک کو ایسی ریاست بنانے کی کوشش کریں جس کا خواب بانی ٔپاکستان قائداعظم نے دیکھا تھا۔ اس کے لیئے ہم نے سب سے پہلے ملک کی سلامتی اور دفاع کو مضبوط بنانا ہے تاکہ ہمارا دشمن اور ملک کے بدخواہ دوسرے عناصر اس پر نگاہِ بد ڈالنے کی جرأت ہی نہ کر سکیں۔