• news

گمشدہ اوراق کی بازیابی

یہ کتاب اپنے قاری کو حیران بھی کرتی ہے اور پریشان بھی ۔ پھر کوئی بات بے حوالہ بھی نہیں۔ واقعات کی تاریخیں ، راوی اور کتاب کا نام سبھی کچھ موجود ۔ اس طرح آپ یہ سوچ کر دل کو جھوٹی تسلی بھی نہیں دے سکتے کہ یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی۔ اس دنیا کا المیہ یہی ہے کہ یہاں انسان بہت تھوڑے ہیں۔ بڑھتی جاتی ہے آبادی اور انسانوں کا کال پڑا ہے ۔ خواجہ فرید نے بھی یہی دکھڑا سنایا :
کیہ حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ ملدا 
انسانوں کی لکھی کتابوں کی بھی یہی قصہ کہانی ہے ۔ بہت کم کتابیں پڑھنے کے قابل نکلتی ہیں۔ لیکن یہ راز ڈھیروں کتابیں پڑھنے کے بعد کھلتا ہے ۔ ’ہم نے جو بھلا دیا‘تاریخ پاکستان کے گمشدہ اوراق ہیںجنھیں معروف اخبار نویس ڈاکٹر فارق عادل نے اکٹھا کیا ہے ۔ یہ کتاب ان کالموں پر مبنی ہے جو بی بی سی اردو سروس کے لیے لکھے گئے ۔ ان کی تحریروں کی ایک ادبی حیثیت بھی ہے ۔ 
بلا شبہ یہ 2023 ء میں شائع ہونے والی اردو کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ کسی کتاب میں پروف کی غلطی کباب میں ہڈی کی طرح ہی بدمزہ ثابت ہوتی ہے ۔ پوری کتاب میں پروف کی کوئی ایک آدھ غلطی بھی نہ ہونا کمال ہے ۔ کتابوں کی بے قدری کے موسم میں چند ماہ میں اس کتاب کے ایک سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ یہ پڑھنے والوں کی طرف سے ڈاکٹر فاروق عادل کی خدمت میں ہدیۂ تحسین ہے۔
پہلے کالم میں مسئلہ کشمیر کا ذکر ہے ۔ چودھری محمد علی کے مطابق قبائلی غیر منظم اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں آگے بڑھ رہے تھے ۔ اگر قبائلی منظم ہوتے اور مال غنیمت جمع کرنے میں نہ جُت جاتے تو 26اکتوبر کو سری نگر ان کے قبضے میں ہوتا۔ چند روز ہوئے بھارت میں کشمیر کا ذکر چھڑا ہوا تھا۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم نہرو پر کشمیر میں جنگ بندی اور معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جانے پر تنقید نے کانگریسی حلقے میں غصے کی لہر کو جنم دیا ہے ۔ نیشنل کانگریس کے فاروق عبداللہ نے امیت شاہ کے بیان پررد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان پونچھ اور راجوری پر قبضہ کرلیتا۔ بھارتی وزیر امیت شاہ نے کہا تھا کہ اگر نہرو اقوام متحدہ میں جانے کی غلطی نہ کرتے تو پورا کشمیر ہندوستان کے پاس ہوتا ۔
لیاقت علی خان نے ماسکو کا دورہ کیوں نہ کیا؟ یہ بات اکثر ہمارے ہاں زیر بحث رہتی ہے ۔ وزیراعظم کا ماسکو نہ جانے کی اہم وجہ مذہبی حلقوں کا خوف بھی ہو سکتی ہے۔ قیام پاکستان کی مخالفت کے باوجود یہ طبقہ اتنا مؤثر اور طاقتور تھا کہ وہ وزیراعظم پاکستان کا ماسکو کا دورہ رکوانے اور جاگیروں پر ہاتھ ڈالنے پر روکنے میں کامیاب رہے۔ اس کتاب میں انکشاف موجود ہے کہ سندھی مہاجر کشمکش آزادی کے پہلے روز ہی شروع ہو گئی تھی۔ ہم اب تک یہی سنتے چلے آرہے ہیں کہ سب اتنے وفا کیش تھے کہ خیموں میں بیٹھ کر کانٹوں سے کاغذات جوڑ کر سیکرٹریٹ چلاتے رہے۔ لیکن ڈاکٹر فاروق عادل نے بڑی تفصیل سے لیاقت کھوڑو اختلافات کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ بڑے گھروں کی الاٹمنٹ کا جھگڑا پہلے روز سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ نئی حکومت کے وزیر خزانہ غلام محمد کا مسئلہ یوں تھا کہ ان کے داماد کو ان کے شایان شان بنگلہ الاٹ نہیں ہو سکا۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان اپنی سرکاری رہائش گاہ کے لان اور اس میں لگے آرائشی فواروں کو چلانے کے اضافی پانی کے لیے پریشان تھے ۔ ادھر شہر میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کی آمد کے باعث پانی کی قلت کا مسئلہ شدت اختیار کر چکاتھا۔ پاکستان میں ان دنوں گندم کی سرکاری قیمت 13روپے 14 آنے فی من تھی ۔
 29جنوری 1953ء کے اخبار’ زمیندار‘ نے لکھا کہ کوڑیوں کے مول ملنے والی یہ جنس ان دنوں اگر ملتی ہے تو صرف پہنچ والوں کو اور وہ بھی 25/30 روپے فی من کے حساب سے۔ 15فروری 1953ء کو لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اس نتیجے پر پہنچا کہ ان مسائل کی بنیادی وجہ حکومت کی غلط پالیسی ہے۔ پھر معاملہ یوں ختم ہوتا ہے کہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل اعظم خان کی ایک ہی گھرکی کے بعد لاہور کے بازار گندم سے بھر گئے اور سرکاری نرخوں پر دستیابی شروع ہو گئی ۔ 02جنوری 1953ء کو گورنمنٹ کی جانب سے کسی نجی دعوت میں دو درجن سے زائد مہمان بلانے پر پابندی لگا دی گئی۔
عدلیہ میں نظریۂ ضرورت کا موجب جسٹس منیر ایک ایسا شخص تھا جس نے پاکستان کو اس کے ابتدائی دنوں میں ہی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی لحاظ سے تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ یاد رہے جسٹس منیر بائونڈری کمیشن کا بھی ممبر تھا۔ گوادر کے بارے میں ایک بھارتی مصنف کا انکشاف موجود ہے کہ عمان کے سلطان نے تقسیم ہند کے بعد بھی گوادر کی فروخت کے لیے بھارت سے رابطہ کیا تھا۔ لیکن بھارتی حکومت نے اس پیشکش کا کوئی جواب نہ دیا۔
 اس کے بعد سلطان نے پاکستان سے رابطہ کیا ۔ مشرقی پاکستان اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کے زخمی ہونے اور پھر موت کے بارے میں بہت سے انکشافات موجود ہیں۔ پہلا مارشل لاء لگانے والے سکندر مرزا کی بے بسی کے واقعات’ پہلی جلاوطنی‘ کے عنوان سے لکھے گئے ہیں۔ بیگم ناہید مرزا تہران کی ایک شاہی ضیافت یاد کرتے ہوئے کہنے لگی ، ان دعوتوں میں دو دو جرنیل شاہ ایران کے پیچھے کھڑے رہتے ہیں، ادھر دیکھو میجر رینک کے اے ڈی سی ہمارے برابر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔
صدر ایوب کے زمانہ میں ایبڈو کے تحت لگائے گئے سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات پڑھ کر ہنسی آتی ہے ۔ ایوب خان کے خلاف تحریک کی بنیاد اس واقعے پر رکھی گئی کہ اس کا کردار راولپنڈی کا عبدالرشید شیخ تھا۔ یہ ایک مشہور عام شیخ رشید نہیں بلکہ وہ شیخ رشید ہے جس کے مطابق شیخ رشید نے ا ن کا نام اختیا رکر رکھا ہے ۔ شیخ مجیب الرحمن کے بہت سے واقعات ،بندہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ راولپنڈی سازش کیس کے اسیروں کی کہانیاں ، جنرل ضیاء الحق کی منافقت اور بھی بے شمار واقعات جو آپ کتاب پڑھ کر ہی جان سکتے ہیں۔ کالم کے آخر میں اسی قید کے دوران کہا گیا حبیب جالب کا ایک قطعہ جو مصنف کے مطابق ان کے کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں:
کون کہتا ہے اسیروں کی رہائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی 
ہم غریبوں کاامیروں پہ ابھی تکیہ ہے 
ہم غریبوں کی ابھی اور پٹائی ہوگی 
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن